اللہِ الْوَلِییہ حدیثِ پاک نَقْل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : موت کی وجہ سے عَقْل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی صِرف بدن اور اَعضاء میں تبدیلی آتی ہے لہٰذا مُردہ اُسی طرح عَقْلمند ، سمجھدار اور تکالیف و لذّات کو جا ننے والا ہوتا ہے، عقْل باطِنی شے ہے اور نَظَر نہیں آتی۔ انسان کا جسم اگر چہِ گل سڑ کر بِکھر جائے پھر بھی عقْل سلامت رہتی ہے۔ ( اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۵۸ ملخّصاً)
تشویش۔۔۔۔تشویش۔۔۔۔۔تشویش
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خداعَزَّ وَجَلَّکی قسم ! تشویش ، تشویش اور سخت تشویش خوف ، خوف اور سخت ترین خوف کامُعامَلہ ہے، جانور کی تو مرتے ہی قوّتِ مَحسُوسہ خَتم ہو جاتی ہے مگر انسان کی عقْل اور محسوس کرنے کی طاقت جُوں کی تُوں باقی رَہتی بلکہ دیکھنے اور سُننے کی قوّت کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔ ہائے ! ہائے! اگر ہماری بد اعمالیوں کے سبب اللہ تبارک وَ تَعَالٰی ہم سے ناراض ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا ! ذرا سوچو تو سَہی ! اگر ہمیں خوبصورت اور آسائشوں سے بھر پور کوٹھی میں تنہا قید کر دیا جائے تب بھی گھبرا جا ئیں ! اور ہم میں سے شایدکوئی بھی قبرِستان میں تو اکیلا ایک رات گزارنے کی جِسا ر ت نہ کر سکے ! آہ ! اُس وقت کیا ہو گا جب منوں مِٹّی تَلے ہمیں اکیلا چھوڑ کر ہمارے اَحباب پلٹ جائیں گے ، جسم اگر چِہ ساکِن ہو گا مگر عقل سلامت ہو گی ، لوگوں کو جاتا دیکھ رہے ہوں گے، ان کے قدموں کی چاپ سن رہے ہوں گے ، منوں مِٹّی تلے دبے پڑے ہوں گے ، آہ ! آہ! آہ! بے نَمازیوں ،