بھی کم اور جس کے پاس زِیادہ ہو اُس کو چھوٹنے کا غم بھی زیادہ ۔یاد رہے! یہ کم یا زیادہ غم اِسی صورت میں ہو گا جبکہ اُس نے اس مال و دولت سے دُنیویمَحَبّت کی ہو گی۔حُجَّۃُ الْا سلا م حضرتِ سیِّدُناامام محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی فرماتے ہیں : ’’ یہ انکِشاف جان نکلتے ہی تَدفین سے پہلے ہو جاتا ہے اور وہ فانی دنیا کی جن جن نعمتوں پر مطمئن تھا اُن کی جُدائی کی آگ اُس کے اندر شُعلہ زن ہوتی ہے۔ ‘‘ (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۴۸)
مومِن کی قَبْر70ہاتھ کشادہ کی جاتی ہے
جس مسلمان نے صِرْف حسبِ ضَرورت دنیا کی چیزوں پر اِکتِفا کیا وہ ہلکا پُھلکا ہوتا ہے، موت اُس کے لئے وِصالِ محبوب کا پیام لاتی ہے، جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے ہوتے ہیں ، جِنہوں نے دنیا کے مال واَسباب سے دل نہیں لگایا ہوتا انہیں مال چُھوٹنے کا صدمہ بھی نہیں ہوتا اور قَبْرمیں اُن کے خوب مزے ہوتے ہیں جیسا کہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ نور بار ہے: ’’ مومِن اپنی قَبْر میں ایک سرسبز باغ میں ہوتا ہے اور اس کی قبر 70 ہاتھ کشادہ کی جاتی ہے اور اُس کی قَبْر چودھویں کے چاند کی طرح روشن کر دی جاتی ہے ۔ ‘‘ (مسند ابی یعلیٰ ج ۵ ص ۵۰۸حدیث ۶۶۱۳)
قابلِ رَشک کون؟
حضرتِ سیِّدُنامَسرُوق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : مجھے کسی پر اِس قَدَر رشک نہیں آتا جس قَدَر قَبْر میں جانے والے اُس مومِن پر رشک آتا ہے جو دنیا کی مشقَّت سے