رَحمتِ کونَین، صاحِبِ قابَ قَوسین، نانائے حَسَنَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یکے بعد دیگرے دو شہزادیاں تھیں ، انہیں دُنیا ہی میں قَطعی جنّتی ہونے کی بِشارت مل چکی تھی اوران سے معصوم فِرشتے حیا کرتے تھے۔ اس کے باوُجود قَبْر کی ہولناکیوں اور اندھیریوں کے بارے میں بے انتہا خوفزدہ رہا کرتے تھے ، خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ کے غَلَبہ کے موقع پر ایک بار ارشاد فرمایا: ’’ اگر مجھے جنّت و جہنَّم کے درمیان لایا جائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ ان دونوں میں سے کس میں جاؤں گا تو میں وَہیں راکھ ہوجانا پسند کروں ۔ ‘‘ (حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء ج ۱ ص ۹۹ حدیث ۱۸۳ مُلَخّصاً)
کاش میری ماں ہی مجھے نہ جنتی
افسوس! صد کروڑ افسوس! ہمارے دلوں پر گناہوں کی تَہیں جَم چکی ہیں ، حالانکہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ موت آکر رہے گی، عین ممکِن ہے آج ہی آجائے اور ہم قَبْرمیں اُتار دیئے جائیں ، یہ بھی جانتے ہیں کہ رات کو بجلی فیل ہو جائے تو دل گھبرا تا اور اندھیرا کاٹ کھاتا ہے، اس کے باوُجود قَبْر کے ہولناک اندھیرے کا کوئی اِحساس نہیں ۔ امیرُالمؤ منین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قَطعی جنّتی ہونے کے باوُجود خوفِ خدا وندی عَزَّ وَجَلَّسے لَرز ا ں وتَرساں رہا کرتے تھے ۔ ایک بار غلَبۂ خوف کے وقْت آپ نے تنکا ہاتھ میں لے کر فرمایا: کاش! میں یہ تِنکا ہوتا، کبھی کہا: کاش! مجھے پیدا ہی نہ کیا جاتا، کبھی کہتے : کاش! میری ماں ہی مجھے نہ جنتی ۔ (اِحْیَاءُ العُلُوم ج۴ص۲۲۶ مُلَخّصاً )