آسکتی ہے اورمرنے کے بعدمجھے گُھپ اندھیری اور مختصر سی قبر میں اُتار کر بند کر دیا جائے گا، میں اگر چِہ بظاہِر ہل بھی نہیں سکوں گا مگر سب کچھ سمجھ میں آرہا ہو گا! ہائے ! اُس وقت مجھ پر کیا گزر رہی ہو گی! میرے بچّوں اورجِگری دوستوں کو یہ معلوم ہونے کے با وُجود کہ مجھے سب کچھ نظر آ رہا ہے پھر بھی اکیلا چھوڑ کر سارے ہی مجھے پیٹھ دیکر چل پڑیں گے، ہائے ! ہائے! میری نافرمانیاں ! اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگیا تو میرا کیا بنے گا ! حضرتِ علّامہ جلا لُ الدّین سُیُوطِی شافِعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ شَرحُ الصُّدورمیں نَقْل کرتے ہیں :
قَبْر کی ڈانٹ
حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عُبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہنبی اکرم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب مُردے کے ساتھ آنے والے لَوٹ کر چلتے ہیں تو مُردہ بیٹھ کر ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے اور قبر سے پہلے کوئی اُس کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتا ، قبر کہتی ہے: کہ اے آدَمی! کیا تُو نے میرے حالات نہ سُنے تھے ؟ کیا میری تنگی ، بد بو، ہولناکی اور کیڑوں سے تجھے نہیں ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھاتو پھر تُو نے کیا تیّاری کی؟ (شَرْحُ الصُّدُوْرص ۱۱۴)
بھاگ نہیں سکتے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سوچئے تو سہی اُس وَقت جبکہ قَبْر میں تنہا رہ گئے ہوں گے، گھبراہٹ طاری ہو گی، نہ کہیں جا سکتے ہوں گے نہ کسی کو بُلا سکتے ہوں گے اوربھاگ نکلنے کی بھی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اُس وَقت قَبْر کی کلیجہ پھاڑ پکار سُن کر کیا گزرے گی! قَبْر