میرا شوہر اپنے لخت ِجگر کے دیدار کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہوگیا ہے ، یہ بچہ اُس وقت پیٹ میں تھا اور اب یِہی اپنے باپ کی نِشانی اورمیری زِندَگانی کا سرمایہ تھا، یہ بیمار ہوگیا ، میں اسے اسی خانقاہ میں دم کروانے لا رہی تھی کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا ہے، میں پھر بھی بڑی اُمّید لے کریہاں حاضِر ہوگئی کہ اِس خانقاہ والے بُزُرْگ کی وِلایت کی ہر طرف دھوم ہے اوران کی نگاہِ کرم سے اب بھی بَہُت کچھ ہوسکتاہے مگر وہ مجھے صبر کی تلقین کر کے اندر تشریف لے جاچکے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھر رونے لگی۔ ’’مَدَنی مُنّے‘‘ کا دل پگھل گیااور اُس کی رَحمت بھری زَبان پر یہ الفاظ کھیلنے لگے: ’’مُحتَرَمہ! آپ کا منّا مرا ہوا نہیں بلکہ زِندہ ہے! دیکھو تو سہی! وہ حرکت کر رہا ہے۔ ‘‘ دُکھیاری ماں نے بے تابی کے ساتھ اپنے ’’مُنّے کی لاش ‘‘ پر سے کپڑا اُٹھا کردیکھا تو وہ سچ مُچ زِندہ تھا اورہاتھ پَیر ہِلاکر کھیل رہا تھا۔ اِتنے میں خانقاہ والے بُزُرگ اندر سے واپَس تشریف لائے ۔ بچے کو زندہ دیکھ کر ساری بات سمجھ گئے اورلاٹھی اُٹھا کر یہ کہتے ہوئے ’’مَدَنی مُنّے ‘‘ کی طرف لپکے کہ تو نے ابھی سے تقدیرِ خداوندی کے سَربَستہ راز کھولنے شروع کردئیے ہیں ! مَدَنی مُنّا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اوروہ بُزُرْگ اُس کے پیچھے دوڑنے لگے، ’’مَدَنی مُنّا‘‘ یکایک قبرِستان کی طرف مُڑا اوربُلند آواز سے پکارنے لگا: اے قبروالو! مجھے بچاؤ! تیزی سے لپکتے ہوئے بُزُرْگ اچانک ٹھٹھک کر رُک گئے کیونکہ قبرِستان سے تین سو مُردے اُٹھ کر اُسی ’’مَدَنی مُنّے ‘‘ کی ڈھال بن چکے تھے اور وہ ’’مَدَنی مُنّا‘‘ دُورکھڑا اپنا چاند سا چہرہ چمکاتا