مرآۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد ہفتم |
روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اﷲ تعالٰی کسی مؤمن پر کسی نیکی میں ظلم نہیں کرتا ہے اس کا عوض دنیا میں دیا جاتا ہے اور اس کے عوض آخرت میں جزا دیا جاوے گا ۱؎ رہا کافر تو وہ دنیا میں اپنے نیکیوں کے عوض جو وہ کرے کھلا دیا جاتا ہے حتی کہ جب آخرت تک پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہوتی جس کی جزا اسے دی جاوے۲؎ (مسلم)
شرح
۱؎ یعنی مؤمن کو اس کی نیکیوں کا فائدہ دنیا میں بھی ملتا ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَ مَنۡ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاوَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیۡثُ لَا یَحْتَسِبُ"تقویٰ کی برکت سے ہر آفت سے نجات،رزق میں فراخی،عزت و عظمت سب ملتی ہے مگر یہاں کی چیزوں سے اس کی آخرت کی جزا کم نہیں ہوتی جیسے سرکاری ملازم کا بھتہ تنخواہ میں نہیں کٹتا اور کافر کی دنیاوی تکالیف آخرت کے عذاب کو کم نہیں کرتیں جیسے ملزم کی حوالات کا زمانہ جیل کی مدت میں نہیں کٹتا۔ ۲؎ یعنی کافر جو دنیا میں ہو ا، دھوپ، غذا پانی وغیرہ کھاپی لیتا ہے وہ اس کی نیکیوں کے حساب میں آجاتا ہے۔جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کا حساب صاف ہوچکا ہوگا وہاں کچھ نہ پائے گا۔مؤمن دنیا میں قانون سے کھاتا پیتا ہے،آخرت میں محبت سے اجر پائے گا۔قانون میں حساب ہے،محبت میں بے حسابی۔ہوٹل میں کھانا حساب سے ملتا ہے دعوت میں بغیر حساب کے کہ ہوٹل قانون کی جگہ،دعوت محبت کا ظہور"یُرْزَقُوۡنَ فِیۡہَا بِغَیۡرِ حِسَابٍ"مؤمن کی دنیاوی تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں حتی کہ بیماریاں،فکریں،رزق کی تنگی سب کفارات ہیں"مَنۡ یَّعْمَلْ سُوۡٓءًا یُّجْزَ بِہٖ"کا یہ ہی مطلب ہے۔(مرقات)