۱؎ یعنی عرب کی عورتوں میں قریش خاندان کی عورتیں بہت اعلیٰ ہیں،چونکہ اہل عرب کی عام سواری اونٹ ہے اس لیے یوں ارشاد فرمایا لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں،حضرت مریم تو قریشی بیویوں سے افضل تھیں۔(مرقات) خیال رہے کہ عورت کو گھوڑے کی سواری ممنوع ہے"لعن اﷲ الفروج علی السروج"۔
۲؎ یہ قریشی عورتوں کی بہتری کی وجہ کا بیان ہے اس جملہ کی بہت شرحیں ہیں آسان ترین شرح یہ ہے کہ قرشی عورتیں بچوں پر مہربان ہوتی ہیں ان کی پرورش بہت عمدہ طریقہ سے کرتی ہیں اور خاوند کی خیر خواہ کہ اس کی جان تو کیا اس کے مال کی بھی حفاظت کرتی ہیں،بعض شارحین نے فرمایا کہ بچے سے مراد یتیم یا بے ماں کے بچے ہیں،اور خاوند کی چیز سے مراد ان کی اپنی ذات ہے یعنی وہ بیویاں خاوند کے لاوارث بچوں کی بھی خوب پرورش کرتی ہیں اوراپنی پارسائی کی حفاظت کرتی ہیں یہ سمجھ کر کہ میں اپنے خاوند کی ہوں۔احناء حنو سے بنا بمعنی شفقت اور ہٗ ضمیر خلق کی طرف لوٹتی ہے یعنی ساری مخلوق میں قرشی عورتیں بچوں پر زیادہ مہربان ہیں یا اس کا مرجع صنف عورت ہے اور صنف مذکر،لہذا ضمیر مذکر ارشاد ہوئی۔