مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت براء ابن عازب سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنے بستر پر جاتے تو اپنی داہنی کروٹ پر لیٹتے پھر یوں کہتے الٰہی میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی اور اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کیا ۱؎ اور اپنا کام تیرے سپرد کیا تیرے کرم پر ٹیک لگائی تیری طرف رغبت کرتے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے ۲؎ تجھ سے نہ کہیں پناہ ہے نہ رہائی سواء تیری طرف کے ۳؎ میں تیری اتاری کتاب پر اور تیرے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لایا ۴؎ فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو یہ کلمات کہہ لے پھر اسی رات مرجائے تو ایمان پر مرے گا ۵؎ اور ایک روایت میں ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ اے فلاں جب تو اپنے بستر پر جائے تو نماز کا سا وضو کرے ۶؎ پھر اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے پھر کہے الٰہی میں نے اپنے کو تیرے سپرد کیا،آخر کلام ارسلت تک۷؎ اور فرمایا کہ اگر تم اسی رات میں مر گئے تم اسلام پر مرو گے اور اگر تم صبح پاؤ گے تو بہت بھلائی حاصل کرو گے۸؎ (مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ نفس سے مراد ذات یا جان ہے اور وجہ سے مراد چہرہ یا توجہ یا دل کا ر خ یا ان دونوں جملوں میں اپنے ظاہر و باطن کیطرف اشارہ ہے یعنی الٰہی میر ا باطن بھی تیرے مطیع ہے کہ اس میں ریاء (شرک)سرکشی نہیں اور میرا ظاہر بھی تیرا فرمانبردار کہ میرا کوئی عضو باغی نہیں،غرضکہ میرا اپنا کچھ نہیں،سب کچھ تیرا ہے سوتے وقت یہ کلمات اس لیے عرض کیے تاکہ معلوم ہوا کہ میرا سونا بھی تیرے حکم کے ماتحت ہے۔(لمعات وغیرہ) ۲؎ لہذا مجھے اندرونی و بیرونی آفات سے بچالے اور میری معاش و معاد اچھی کر دے،رغبت تو تفویض کے لحاظ سے ہے اور ہیبت الجأت کے اعتبار سے ہے،چونکہ بیداری میں انسان کچھ ذمہ دار ہوتا ہے اور بااختیار مگر سوجانے پر سب کچھ کھو بیٹھتا ہے اسی لیے اس موقعہ پر یہ دعا بہت ہی موزوں ہے،نیز سوتے وقت یہ خبر نہیں ہوتی کہ اب سویرے کو اٹھوں گا یا قیامت میں اس لیے یہ کہہ کر سونا بہتر ہے کہ خدایا اب سب کچھ تیرے سپرد۔شعر سپردم تبو مایہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ۳؎ یعنی تیرے غضب سے پناہ صرف تیری رحمت کے دامن میں ہی مل سکتی ہے اور تیری پکڑ سے رہائی صرف توہی دے سکتا ہے،تیرے غضب کی آگ کو صرف تیری رحمت ہی کا پانی بجھاسکتا ہے،اگر تو عدل کرے تو اونچے اونچے کانپ جائیں اگر فضل فرمائے تو گنہگاروں کی بھی امید بندھ جائے۔شعر عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے فضل کریں تو بخشے جاون میرے جیہے منہ کالے ۴؎ کتاب سے مراد قرآن شریف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مراد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور یہ الفاظ ہماری تعلیم کے لیے ہیں ورنہ حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے کہ میں اپنی رسالت پر ایمان لایا،نیز حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات و صفات یعنی نبوت و رسالت وغیرہ کا علم حضور کے لیے علم حضوری ہے۔حضور صلی اللہ علیہ و سلم تو لوگوں کے لیے عین ایمان ہیں جیسے اﷲ تعالٰی اپنی توحید و صفات کو جانتا تو ہے مگر اسے موحد یا مؤمن اس معنے سے نہیں کہہ سکتے،یونہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی نبوت و رسالت کو جانتے تو ہیں مگر اس جاننے کو ایمان نہیں کہا جائے گا،حضور صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے قرآن کے مؤمن ہیں نہ کہ اپنے اسی لیے رب تعالٰی نے فرمایا:" اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ"یہ نہ فرمایا:"امن الرسول برسالتہ"ہاں چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا سارا قرآن پر ایمان ہے اور قرآنی آیات میں حضور کی رسالت کی بھی آیات ہیں حضور ان کے مصداق ہیں اسی لحاظ سے اپنے بھی مؤمن۔(ازمرقات مع زیادۃ) ۵؎ یعنی یہ دعائیہ کلمات صبح تک اس کے ایمان کی گارنٹی ہیں،پھر سویرے کو نیا روز نئی روزی ہے۔ ۶؎ یعنی اگر سوتے وقت تمہارا وضو نہ ہو تو اس اہتمام سے وضو کرلو جس اہتمام سے نماز کے لیے کرتے ہو مع مسواک و ادائے سنن و مستحبات،یہ حکم استحبابی ہے،پہلے بحوالہ مرقات عرض کیا جاچکا ہےکہ اگر اس وقت تیمم بھی کرے جب بھی ان شاءاﷲ یہ ہی فائدہ ہوگا۔ ۷؎ یہ تمام کلام حضرت براء کا ہے جو اختصارًا بیان فرمایا۔ظاہر یہ ہے کہ اس دعا میں کتاب سے قرآن شریف اور نبی سے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم مراد ہیں اور ممکن ہے کہ کتاب سے تمام آسمانی کتب اور نبی سے تمام نبی مراد ہوں کہ سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔(اشعہ)نبی یا تو نباء سے بنا بمعنی خبر،نبی خبر دینے والا کس کی اﷲ کی ذات و صفات،معاش و معاد کی۔یا نبئاۃ سے بنا بمعنی بلندی درجہ،نبی بلند درجے والا۔(مرقات) ۸؎ بعض روایات میں انہی براء ابن عازب سے ہے کہ میں نے دوبارہ یہ ہی دعا حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کو سنائی تو بجائے بنبیّك کے برسولك کہہ دیا تو حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں یہ ہی کہوں بنبیّك۔معلوم ہوا کہ وظیفے کے الفاظ بالکل نہ بدلے ورنہ تاثیر نہ ہوگی۔علماء فرماتے ہیں کہ اگر حدیث کے الفاظ یاد ہوں تو روایت بالمعنی نہ کرے،حدیث کی روایت بالمعنی جب درست ہے جب کہ الفاظ یاد نہ رہے ہوں،یونہی قرآن کریم کے الفاظ،شد،مد،مخارج،طریقۂ ادا میں حتی الامکان تبدیلی نہ ہونے دے۔اس حدیث میں وعدہ فرمایا گیا کہ سوتے وقت یہ پڑھنے والا ان شاءاﷲ ایمان پر مرے گا،اسلام و تقویٰ پر جئے گا،بڑی ہی مجرب دعا ہے،فقیر بفضلہ تعالٰی اس پر عامل ہے۔