مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم |
روایت ہے حضرت حذیفہ سے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب رات میں اپنا بستر لیتے تو اپنا ہاتھ ر خسار کے نیچے رکھتے ۱؎ پھر کہتے الٰہی میں تیرے نام پر مروں گا اور جیوں گا ۲؎ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے شکر ہے اس اﷲ کا جس نے ہمیں مر جانے کے بعد زندہ کیا اسی کی طرف اٹھنا ہے ۳؎ (بخاری)اور مسلم نے حضرت براء سے۔
شرح
۱؎ آپ کا بستر شریف قبر کے رُخ بچھایا جاتا ہے کہ قبلہ کے داہنے سر مبارک ہوتا اور قبلہ کے بائیں پاؤں شریف حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم سیدھی کروٹ پر لیٹتے،داہنا ہاتھ داہنے رخسار ہ کے نیچے رکھتے تھے۔قبر میں میت کی ہیئت بھی یہ ہی ہوتی ہے،چونکہ نیند موت کا نمونہ ہے اسی لیے حضور علیہ السلام کا بستر قبر کے نمونہ کا ہوتا تھا تاکہ لیٹنے کے وقت موت یاد آئے کہ کبھی قبر میں بھی لیٹنا ہے۔ ۲؎ یہاں موت و زندگی سے مراد سونا جاگنا ہے،رب تعالٰی کا نام شریف ممیت بھی ہے اور محیی بھی یعنی ممیت کے نام پر مروں گا اور محیی کے نام پر جیوں گا یعنی بیدار ہوں گا کہ میرے یہ دو حال تیرے ان دو ناموں کا مظہر ہیں۔(مرقات) ۳؎ یعنی یہ جاگنا یہ کل قیامت میں اٹھنے کی دلیل ہے۔نشور نشر سے بنا بمعنی متفرق ہونا،پھیل جانا،اسی سے انتشار اور منتشر بنا،جاگنے کو نشور اسی لیے کہتے ہیں کہ بندے جاگ کر طلب رزق وغیرہ کے لیے پھیل جاتے ہیں اور بکھر جاتے ہیں۔خیال رہے کہ عربی میں نیند،سکون،بے عقلی،جہالت،بھیک مانگےے،گناہ،بڑھاپے،ناگوار حالت جیسے ذلت،فقر و غیرہ کو موت کہہ دیتے ہیں اور ان کے مقابل کو حیات یعنی زندگی،یہاں موت بمعنی نیند ہے اور احیاء بمعنی بیداری،رب تعالٰی فرماتا ہے:"اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحْیَیۡنٰہُ"اور فرماتا ہے:"اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی"ان دونوں آیتوں میں موت سے مراد جہالت ہے اور میت سے مراد جاہل و کافر۔(مرقات و لمعات)