Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح جلد چہارم
1 - 671
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
باب ما یقول عند الصباح و المساء و المنام

باب صبح شام اور سوتے وقت کیا کہے ۱؎
الفصل الاول

پہلی فصل
۱؎ صبح شام سے مراد دن کے دونوں کنارے ہیں،یعنی نماز فجر سے پہلے اور بعد تاطلوع آفتاب اور مغرب کی نماز کے بعد سے تاغروب شفق۔منام مصدر میمی بھی ہوسکتا ہے اور ظرف بھی یعنی سونے پر یا سونے کے وقت کیا پڑھے۔ظاہر یہ ہے کہ یہاں سونے سے مراد رات کا سونا ہے نہ کہ دوپہر کا قیلولہ و آرام کیونکہ اس باب میں رات کے سونے ہی کی دعائیں بیان ہونگی۔رات میں اصل آرام ہے،دنیاوی کاروبار اس کے تابع ہے  اور دن میں اصل کاروبار ہے،سونا اس کے تابع،رب فرماتا ہے:"وَّجَعَلْنَا الَّیۡلَ لِبَاسًا وَّ جَعَلْنَا النَّہَارَمَعَاشًا"لہذا حقیقتًا سونے کا وقت رات ہی ہے۔
حدیث نمبر 1
روایت ہے حضرت عبداﷲ بن مسعود سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم جب شام پاتے تو فرماتے ہم نے شام پائی اور اﷲ کے ملک نے شام پائی سب تعریفیں اﷲ کو ہیں ۱؎  اس اکیلے کے سواء کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اس کا ملک ہے،اس کی حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۲؎  الٰہی میں تجھ سے اس رات کی اور جو اس رات میں ہے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس رات کی اور جو اس میں ہے اس کی شر سے تیری پناہ لیتا ہوں۳؎  خدایا میں سستی،بڑھاپے اور زیادتی عمر کی برائیوں سے۴؎  اور دنیا  کے فتنوں سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ لیتا ہوں ۵؎ اور جب سویرا پاتے تو ساتھ یہ بھی کہتے ہم نے سویرا پایا اور اللہ کے ملک نے سویرا پایا ۶؎ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ یارب میں آگ میں عذاب اورقبر میں عذاب سے تیری پناہ لیتا ہوں۷؎ (مسلم)
شرح
۱؎  یعنی خدا  کا  شکر ہے کہ ہم نے بخیریت دن گزار لیا اور شام پالی،ہمارے ساتھ رب تعالٰی کے ملک نے بھی شام پالی،یہ دونوں چیزیں اﷲ کی نعمتیں ہیں،اگر ملک تباہ ہوجاتا صرف ہم ہی رہ جاتے تب بھی مصیبت تھی۔یہاں ملک سے مراد عالم اجسام سفلی ہے جہاں دن رات ہوتے ہیں۔عالم انوار،عالم امر،جنت دوزخ وغیرہ میں نہ دن ہو نہ رات وہاں تو رب کی تجلی ہے نہ کہ سورج کی جیسے قیامت میں ہوگا،رب تعالٰی فرماتا ہے:"وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا"۔

۲؎  یعنی ان دن رات کے آنے جانے صبح و شام کی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو گردش دینے والا  اکیلا معبود ہے جس کا کوئی ساتھی نہیں اور ہر چیز پر قادر ہے۔سبحان اﷲ! کیسا پیارا  استدلال ہے کہ گھومنے والی چیزوں سے گھمانے والے کی قدرت کا پتہ لگاؤ۔

۳؎  ہر وقت اپنے ساتھ خیر یا شر لاتا ہے،کسی وقت میں خطرناک حادثے ہوجاتے یا ہم سے برے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں اور کسی وقت میں اچھے واقعات رونما ہوتے ہیں یا ہم کو اچھے اعمال کی توفیق ملتی ہے۔اس دعا  میں عرض کیا گیا ہے کہ خدایا اس وقت کے حادثات،برے اعمال سے تیری پناہ اور اس وقت کے اچھے واقعات اورنیک اعمال کی توفیق کی تجھ سے طلب ہے۔معلوم ہوا کہ اوقات کو حادثات و اعمال میں دخل ہے۔

۴؎ کسل کے معنی ہیں طبیعت کا بوجھ جس سے عبادات بخوبی ادا  نہ ہوسکیں  اگرچہ جسم میں طاقت ہو۔ہر م وہ  بڑھاپا  جس سے زندگی کا اصل مقصود فوت ہو جائے یعنی علم و عمل جاتے رہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:"لِکَیۡ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْـًٔا"اور بڑھاپے کی برائی سے مراد سٹھ جانا ہے کہ مت کٹ جائے اور انسان دوسرو ں پر بوجھ بن جائے کہ اپنے عزیز اس کی موت کی تمنا کرنے لگیں۔معلوم ہوا کہ شیخوختہ،ہرم اور کبر  اگرچہ  تینوں کے معنی بڑھاپا ہی ہیں مگر ان تینوں کا آپس میں بڑا فرق ہے،یہ بھی معلو م ہوا کہ یہاں ھرم و سوءکبر میں تکرار نہیں بلکہ ان کے معنی جدا جدا ہیں۔

۵؎ دنیا کے فتنے،محبت دنیا اور غفلت عیش ہیں،یہ دونوں چیزیں تمام گناہوں کی خبر ہیں۔عذاب قبر سے مراد یا  تو  خود وہاں کا عذاب ہے یا اس عذاب کے اسباب جیسے چغل خوری یا پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا وغیرہ بہرحال یہ دعا بہت نفیس ہے۔

۶؎ باقی تمام وہ الفاظ کہتے جو شام کے وقت کی دعا میں گزر گئے اور ان کی وہ ہی تفسیر ہے جو ابھی عرض کردی گئی۔

۷؎ خیال رہے کہ دوزخ کا عذاب آگ میں عذاب ہے کہ بندہ آگ میں داخل ہو کر عذاب پائے گا اور قبر میں عذاب آگ کا عذاب ہے کہ قبر میں دوزخ نہیں آجاتی بلکہ دوزخ کی کھڑکی کھل جاتی ہے جس سے وہاں کی لپٹ،گرمی،دھواں،بدبو وغیرہ آتی رہتی ہے،رب تعالٰی دونوں سے بچائے۔
Flag Counter