مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم |
روایت ہے حضرت ابوذر سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی فرماتے ہیں ایسا کوئی شخص نہیں جس کے پاس اونٹ یا گائے یا بکریاں ہوں جن کا حق ادا نہ کرتا ہو ۱؎ مگر وہ جانور قیامت کے دن اتنے بڑے اور موٹے جتنے ہوسکتے ہیں کرکے لائے جائیں گے وہ اپنے کھروں سے اسے روندیں گے اور اپنے سینگ گھونپیں گے جب بھی آخری گزر جائے گا تو پہلا لوٹایا جائے گا حتی کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۲؎ (بخاری ومسلم)
شرح
۱؎ یہاں حق سے مراد شریعت کا حق فرضی ہے یعنی زکوۃ کیونکہ نفلی حق کے ترک پر عذاب نہیں ہوتا جو کبھی بھی زکوۃ ادا نہ کرے اس کی بھی یہی سزا ہے اور گنڈے دار زکوۃ دیتا ہو کہ کبھی دی کبھی نہ دی یا پوری نہ نکالی اس کی بھی یہی سزا کیونکہ یہاں لَایُؤَدِّیْمطلق ہے۔ ۲؎ اس کی سزا پہلےگزر چکی،یہاں اتنا اور سمجھ لو کہ یہ وہی دنیا کے جانورہوں گے مگر جو دبلے تھے وہ موٹے ہوکر،جو بے سینگ تھے وہ سینگ والے ہوکر اس بخیل پر مسلط ہوں گے اوربخیل کو یہ عذاب دوران حساب میں ہوگا کہ لوگ حساب دے رہے ہوں گے اور یہ پڑا ہوا کچلا جارہا ہوگا،دوزخ کا عذاب اگر ہوا تو اس کے علاوہ ہوگا۔اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ قیامت میں جن و انس کی طرح جانوربھی زندہ کئے جائیں گے مگر دوزخ یا جنت میں بھیجنے کے لیے نہیں کیونکہ دوزخ صرف جن و انس کے لیے ہے اور جنت صرف انسانوں کے لیے بلکہ آپس میں ایک دوسرے کا بدلہ دینے کے لیے،فاسق مالکوں کو سزا دینے اور متقی مالکوں کی خدمت کرنے کے لیے۔حدیث شریف میں ہے کہ قربانی کا جانور مالک کی سواری ہوکر اسے پلصراط سے اتارے گا اس کے بعد یہ جانور مٹی کردیئے جائیں گے۔دوسرے یہ کہ اگر ایک جانور چند شخصوں کی ملکیت میں رہا تھا اور وہ سب بخیل تھے تو ان تمام مالکوں کو اپنے قدموں سے روندیں گے اور اگر کوئی جانور پہلے بخیل کی ملکیت میں رہا،پھر دوسرے مالک کے پاس قربانی میں ذبح ہوا تو بخیل کو روندے گا اور اس کے بعد قربانی والے کی سواری بنے گا۔