مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم |
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایسا کوئی سونے چاندی والا نہیں جو اس کا حق(زکوۃ)ادا نہ کرے ۱؎ مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کے لیے آگ کے پتر ے بنائے جائیں گے پھر ان پر دوزخ کی آگ میں دھونکا جائے گا۲؎ جس سے اس کے پہلو پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی۳؎ جب بھی لائے جائیں گے تو لوٹائے جائیں گے۴؎ یہ دن بھر ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتی کہ بندوں میں فیصلہ کردیا جائے۵؎ تو یہ جنت یا دوزخ کا اپنا راستہ دیکھے۶؎عرض کیا گیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو اونٹ۷؎ فرمایا ایسا کوئی اونٹ والا نہیں جو ان کا حق ادا نہ کرے اور ان کا حق انہیں دوھنا بھی ہے انہیں گھاٹ پر لانے کے دن۸؎ مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو یہ ان اونٹوں کے سامنے کھلے میدان میں اوندھا ڈالا جائے گا جن میں سے ایک بچہ بھی کم نہ ہوگا یہ اونٹ اسے اپنے سم سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے ۹؎ جب اس پر پہلا اونٹ گزرے گا تو پچھلا اونٹ واپس ہوگا۱۰؎ یہ اس دن ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے حتی کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے تو یہ اپنا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھے عرض کیا گیا یارسول اﷲ پھر گائے بکریاں ۱۱؎ فرمایا ایسا کوئی گائے اوربکریاں والا نہیں جو ان کا حق(زکوۃ)نہ دیتا ہو۱۲؎ مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے سامنے کھلے میدان میں الٹا ڈالا جائے گا جن میں سے کوئی جانور کم نہ ہوگا ان میں نہ تو کوئی ٹیڑھے سینگ والا ہو نہ نبڈا ۱۳؎ یہ اسے اپنے سینگوں سے گھونپیں اور کھروں سے روندیں گے۱۴؎ جب بھی پہلاگزرے گا تو پچھلا واپس ہوگا یہ اس دن ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے حتی کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۱۵؎ تو یہ اپنا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھے عرض کیا گیا یارسول اﷲ تو گھوڑا فرمایا کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں۱۶؎ ایک کے لیے گھوڑا گناہ ہے دوسرے کے لیے آڑ تیسرے کے لیے ثواب۱۷؎ جس کے لیے گھوڑا گناہ ہے وہ تو وہ شخص جو دکھلاوے شیخی اور مسلمانوں کی عداوت کے لیے گھوڑا باندھے اس کے لیے گناہ ۱۸؎ اور جس کے لیے گھوڑا پردہ ہے وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں مسلمانوں کے لیے گھوڑا باندھے ۱۹؎ پھر اس کی پیٹھ میں اللہ کا حق نہ بھولے۲۰؎ نہ ان کی گردنوں میں ۲۱؎ وہ گھوڑے اس کا پردہ ہیں۲۲؎ لیکن وہ گھوڑے جو اس کے لیے ثواب ہیں وہ شخص ہے جو اﷲ کی راہ میں مسلمانوں کے لیےکسی چراگاہ یا باغ میں باندھے۲۳؎ تو وہ گھوڑے اس چراگاہ یا باغ میں کچھ نہیں کھاتے مگر جس قدر کھاتے ہیں اسی قدر اس کے حق میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ان کے لید و پیشاب کے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں۲۴؎ اور ایسا نہیں ہوتا کہ وہ گھوڑے اپنی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلوں پر چڑھ جائیں مگر اﷲ ان کے نشان قدم اور لید کی بقدر نیکیاں لکھتا ہے ۲۵؎ اور ان کا مالک انہیں لے کرکسی نہر پر نہیں گزرتا جس سے وہ کچھ پی لیں حالانکہ مالک پلانے کا ارادہ بھی نہ کرتا ہو مگر اﷲ ان کے پینے کی بقدر نیکیاں لکھتا ہے ۲۶؎ عرض کیا گیا یارسول اللہ تو گدھے فرمایا گدھوں کے متعلق اس جامع آیت کے سوا کچھ حکم نازل نہ ہوا جو ذرہ بھر نیکی کریگا اسے دیکھے گا اور جو ذرہ بھر برائی کریگا وہ دیکھے گا۔(مسلم)
شرح
۱؎ ظاہر یہ ہے کہ حق سے مراد زکوۃ مفروضہ ہےکیونکہ فطرہ،قربانی یا حقوق العباد ادا کرنے پر وہ وعید نہیں جو یہاں مذکور ہے۔ ۲؎ یعنی اس کا سونا چاندی اوّلًا سخت گرم پتر بنائے جائیں گے جو گرمی کی وجہ سے گویا آگ ہی ہوں گے پھر ان گرم پتروں کو اوربھی گرم کرنے کے لیے دوزخ کی آگ میں رکھ کر دھونکا جائے گا اس کی تشریح قرآن کریم میں یوں ہے"یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِجَہَنَّمَ"لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ آگ کے پترے نہیں ہوتے،نیز آگ کے پتروں کو پھر آگ میں دھونکنا سمجھ میں نہیں آتا۔ ۳؎ چونکہ یہ بخیل فقراء سے منہ موڑ لیتا تھا انہیں دیکھ کر پہلو پھیرکر چل دیتا تھا اس لیے ان دونوں مقام ہی پر داغ لگائے جائیں گے جیسے چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں کہ اس نے ان سے ہی چوری کی۔ ۴؎ یعنی یہ پترے جب بھی اس کا بدن داغ کر دوزخ میں پھر لائے جائیں گے تو تپا کر پھر اس کے بدن پر ہی لوٹائے جائیں گے بار بار گرم کرکے لگائے جائیں گے۔ ۵؎ یعنی یہ داغا جانا قیامت کے دن،دن بھر ہوتا رہے گا لوگ اپنے حساب و کتاب میں مشغول ہوں گے اور یہ سزا بھگت رہا ہوگا بعد قیامت سزا جزا علیحدہ ہے اور اس تکلیف کی وجہ سے اسے یہ دن پچاس ہزار سال کا محسوس ہوگا نیک کاروں کو بقدر چار رکعت نماز۔ ۶؎ یعنی بعد قیامت اپنا راستہ جنت یا دوزخ کا دیکھے یا دکھایا جائے۔یری معروف ہے یا مجہول یعنی یہ عذاب تو زکوۃ نہ دینے کا ہوا اب اگر اور گناہ نہ ہوں یا ہوں تو رب تعالٰی بخش دے تو جنت میں بھیج دے اور اگر نہ بخشے تو ان گناہوں کی سزا میں کچھ عرصہ کے لیے دوزخ میں بھیج دے اس جملہ کی یہ ہی توجیہ قوی ہے۔ ۷؎ یعنی سونے چاندی تو بخیل کو تپا کر لگائے جائیں گے اگر اونٹوں کی زکوۃ نہ دی ہو تو ان کی سزا کیا ہے اونٹ تو تپائے نہیں جاتے۔ ۸؎ عرب میں دستور تھا کہ اونٹوں کو ہفتہ میں ایک دو بار پانی پلانے کے لیے گھاٹ یا کنوئیں پر لے جاتے تھے،اس دن فقراء کا وہاں مجمع لگ جاتا تھا،اونٹ والے اونٹنیاں دوھ کر ان فقراء اور مسافروں کو دودھ پلادیتے تھے،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ یہ دودھ پلانا بھی ان اونٹوں کا حق ہے۔خیال رہے کہ جانوروں کی زکوۃ تو فرض ہےمگر یہ دودھ پلانا مستحب ہے اور مستحب چھوڑنے پر عذاب نہیں ہوتا لہذایا تو اس سے مضطر فقراء کو دودھ پلانا مراد ہے جن کی بھوک سے جان نکل رہی ہو یا پہلے یہ فرض تھا اب مستحب ہے جیسے تنگی کے زمانہ یعنی شروع اسلام میں قربانی کا گوشت صرف تین دن رکھنا جائز تھا۔مرقات نے فرمایا اس جملہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیاسی اونٹنیوں کو نہ دوہو صرف گھاٹ پر لانے کے دن پانی پلا کردوہو،یہ بھی خشک سالی کے زمانہ کے احکام میں سے ہے۔ ۹؎ یعنی اس بخیل کی سزا یہ ہوگی کہ اسے ہموار میدان میں اوندھا ڈال کر اس پر اس کے سارے اونٹوں کو گھمایا جائے گا،یہ سب بہت اونچے اور موٹے ہوں گے اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے۔ ۱۰؎ یعنی یہ روندنے والے اونٹ لمبی قطار میں نہ ہوں گے کہ اس پر یہ قطار روندتی گزر جائے اور اس کا چھٹکارا ہوجائے بلکہ گول دائرہ کی شکل میں حلقہ باندھے ہوں گےاور آخری اونٹ کے گزرنے پر پھر پہلا اونٹ اس پر آجائے گا،اصل عبارت اس کے برعکس تھی یعنی اخری کا ذکر پہلے تھا اولیٰ کا بعد میں جیساکہ مسلم کی بعض روایات میں ہے۔مبالغہ کے لیے آخری کو اولیٰ فرمادیا گیا یعنی اس طرح لگاتارہوکر اس پر گھومیں گے کہ گویا پچھلا اونٹ پہلا ہوجائے گا اور پہلا پچھلا،چونکہ اس کا بخل بھی دائمی تھا اس لیے یہ سزا بھی دائمی ہوئی،درمیان میں وقفہ نہ ہوا کہ اسے کچھ آرام مل جائے۔ ۱۱؎ ان کا کیا حکم ہے جو شخص بقدر نصاب ان کا مالک ہو پھر ان کی زکوۃ نہ نکالے تو اس کی سزا کیا ہے۔ ۱۲؎ مِنْھَا میں مِنْ بمعنی اجل یابمعنی لامہے یعنی بکریوں کی وجہ سے جو زکوۃ فرض ہوئی وہ ادا نہ کرتا ہو لہذا اس حدیث سے یہ لازم نہیں کہ جانور کی زکوۃ میں جانور ہی دیا جائے بلکہ جانور کی قیمت بھی دے سکتے ہیں۔(مرقات) ۱۳؎ یعنی اگرچہ دنیا میں اس کی بعض گائے بھینسیں ٹوٹے سینگ والی بھی تھیں اوربعض بالکل نبڈی مگر قیامت میں سب کے نوکیلے سینگ ہوں گے۔خیال رہے کہ قیامت میں ہر چیز اپنے دنیاوی حالت پر اٹھے گی،رب تعالٰی فرماتا:"اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیۡدُہٗ"پھر بعد میں ان کے حالات بدلیں گے لہذا یہ جانور دنیا میں جیسے تھے ویسے ہی اٹھیں گے،بعد میں سب کو سینگ ملیں گے لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں۔ ۱۴؎ عربی میں گائے بھینس کے کھرکو ظلف کہتے ہیں،جمع اظلاف۔اور گھوڑے کی ٹاپ کو سُمیعنی بخیل کے یہ جانور اسے سینگ بھی گھونپیں گے اور کھروں سے بھی روندیں گے۔غرضکہ قربانی کے جانور پر سخی خود سوار ہوگا اور بے زکوتے جانوربخیل پر سواری کریں گے جیسے اچھے معدے والا جو بقدرضرورت کھانا کھائے تو وہ کھانے پر سوار ہوتاہے اور زیادہ کھا جانے والے پر کھانا سوار ہوجاتا ہے جسے یہ اٹھائے پھرتا ہے۔ ۱۵؎ اس کی شرح پہلے گزر چکی یعنی قیامت کے دن دوران حساب میں تمام مخلوق تو حساب و کتاب دیتی ہوگی مگر یہ بخیل اس عذاب میں مبتلا ہوگا۔ ۱۶؎ خیال رہے کہ احناف کے نزدیک سائمہ گھوڑوں میں بھی زکوۃ فرض ہے،شوافع کے ہاں نہیں لہذا ہمارے ہاں اس جواب کا مقصد یہ ہے کہ گھوڑے میں علاوہ زکوۃ کے اوربھی پابندیاں ہیں جو آگے مذکور ہیں یعنی ان میں فقط زکوۃ کا سوال نہ کرو بلکہ غیر سائمہ یعنی گھر کھانے والا گھوڑا سواری کے لیے بھی ہو جس میں زکوۃ واجب نہیں ہوتی اس کا بھی یہ حکم ہے اور اگر گھوڑے میں زکو ۃ فرض نہ ہوتی تو حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم خچر گدھوں کی طرح یہاں بھی فرمادیتے کہ ان کے متعلق مجھ پر کوئی خاص حکم نہیں آیا لہذا اس حدیث سے شوافع یہ دلیل نہیں پکڑسکتے کہ گھوڑے میں زکوۃ نہیں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب بطریق حکیمانہ ہے جیسے صحابہ کرام نے سوال کیا تھا کہ ہم کیا خیرات کریں تو رب تعالٰی نے جواب دیا فلاں فلاں جگہ خیرات کرو۔(قرآن کریم)یعنی جواب سوال کے مطابق نہیں بلکہ سائل کے حال کے مطابق ہے۔ ۱۷؎ یعنی پالتو گھوڑا جو تجارت کے لیے نہ ہو وہ کسی کے لیے ثواب کا باعث ہے اور کسی کے لیے نہ ثواب نہ عذاب یا ایک ہی گھوڑا ایک ہی شخص کے لیے اس کی نیت کے اعتبار سے کبھی ثواب ہے کبھی عذاب اور کبھی کچھ نہیں،جیسی نیت ویسا پھل یہ ہی حکم عمارتیں بنانے اعلیٰ لباس پہننے کا ہے۔ ۱۸؎ یعنی جو گھوڑا اس نیت سے رکھے کہ لوگوں پر میری بڑائی ظاہر ہو،دوسرے مسلمان میرے سامنے ذلیل و خوار نظر آئیں اور اگر کسی مسلمان سے میری لڑائی ہوجائے تو اس گھوڑے پر سوار ہوکر اس کے خلاف جنگ کروں،چوری ڈکیتی اسی کے ذریعہ کروں جیساکہ عام نمبردار چوہدری اور چور،ڈاکو گھوڑے اسی لیے رکھتے ہیں ان کے لیے گھوڑا رکھنا سخت عذاب کا باعث ہے۔ ۱۹؎ یہاں اﷲ کی راہ سے مراد جہاد نہیں یہ تو تیسری قسم میں آئے گا بلکہ اﷲ کی راہ سے مراد اپنی دنیاوی ضرورتیں پوری کرنا ہے کیونکہ مسلمان کا دنیا کمانا بھی سبیل اﷲ ہے یا تجارت کے لیے پالنا مراد ہے کہ تجارت بھی سبیل اللہ ہے دوسرے معنے زیادہ ظاہر ہیں۔ ۲۰؎ اس طرح کہ ضرورت کے وقت کسی مسلمان بھائی کو چند روز کے لیے عاریۃً گھوڑا دے دے جس سے وہ اپنا کام نکال لے یا کسی کی گھوڑی پر اپنا گھوڑا بلامعاوضہ چھوڑ دے کہ اس میں مسلمان بھائی کا کام نکالنا ہے۔خیال رہے کہ نر گھوڑے،بیل،بھینسے اور بکرے کا اجرت لے کر مادہ پر چھوڑنا منع ہے وہ اجرت ناجائز ہے جیساکہ آئندہ آئے گا۔ ۲۱؎ گھوڑے کی پیٹھ کا حق تووہ تھا جو اوپر ذکر ہوا،اس کی گردن کا حق یہ ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہو تو اس کی قیمت میں چالیسواں حصہ زکوۃ دے فی سینکڑہ ڈھائی روپے،یہ جملہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل ہے کہ سائمہ اور تجارتی گھوڑے میں زکوۃ ہے جسے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی گردن کا حق فرمایا،دوسرے حقوق تو اس کی پیٹھ کے حق میں آگئے تھے۔وہ جو حدیث شریف میں ہے کہ مؤمن پر اس کے گھوڑے اور غلام میں صدقہ نہیں وہاں گھوڑے سے مراد یا تو غازی کا گھوڑا ہے یا وہ گھوڑا جو گھر میں گھاس چارہ کھاتا ہو۔اس مسئلہ کی پوری تحقیق لمعات شرح مشکوٰۃ میں ملاحظہ کریں۔خیال رہے کہ صرف گھوڑوں یا صرف گھوڑیوں میں زکوۃ نہیں بلکہ مخلوط میں زکوۃ ہے کہ یا تو ہر گھوڑے سے ایک دینار(اشرفی)دیدے یا اس کی قیمت لگا کر ہر ستاون روپے سے چالیسواں حصہ زکوۃ نکال دے۔چنانچہ حضرت عمرنے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ تھا کہ گھوڑے والوں کو یہ اختیار دو۔(ہدایہ،کفایہ وغیرہ) ۲۲؎ یعنی آج اس کے اور لوگوں کی حاجت کے درمیان پردہ ہیں کل قیامت میں اس کے اور آگ کے درمیان پردہ ہوں گے یہ کلمہ دونوں کو شامل ہے۔ ۲۳؎ یعنی جہاد کی نیت سے بغرض ثواب گھوڑا پالے،چونکہ جہاد کا نفع مسلمانوں کو پہنچتا ہے اس لیے لِاَھْلِ الْاِسْلَامِبھی فرمایا گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں بندگانِ خدا کی خدمت کی نیت کرنا عبادت کو ناقص نہیں کرتا بلکہ اسے کامل ترکردیتا ہے جیساکہ قرآن کریم کی صریح آیت سے ثابت ہے۔عربی میں مرج اس وسیع میدان کو کہتے ہیں جس میں گھاس چارہ وغیرہ بکثرت ہو۔ ۲۴؎ کیونکہ اس کھانے اور پیشاب و لید وغیرہ سے ان گھوڑوں کی بقاہے اور جیسے نیکی کے اسباب جمع کرنا عبادت ہے ایسے ہی ان کی حفاظت بھی عبادت ہے،نیز یہ چارہ و گھاس مالک نے اپنے مال سے کھلایا اور یہ لید پیشاب اس چارہ سے بنا۔معلوم ہوا کہ نیکی متغیر ہونے کے بعدبھی نیکی ہی رہتی ہیں۔ ۲۵؎ یہ گھوڑے کیل سے بندھے ہوئے جو حرکت کریں یا کھائیں پئیں وہ تو اس مالک کے لیے نیکیاں ہیں ہی، اگر مالک کے بغیر ارادہ رسی کو توڑا کر بھاگ جائیں اور اس حالت میں زمین پر ان کے قدم پڑیں یا وہ لید پیشاب کریں تب بھی مالک کو ثواب ہے۔خیال رہے کہ ثواب کے لیے اگرچہ نیت ضروری ہے مگر ہر آن نئی نیت لازم نہیں،مسجد بنانے والا مربھی جائے تو اسے قبر میں ثواب پہنچتا رہتا ہے بناتے وقت کی نیت قیامت تک کام آتی ہے لہذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ"اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ"۔خیال رہے کہ لید و پیشاب کا ذکر فرمانے میں اس جانب اشارہ ہے کہ جب آلۂ جہاد یعنی گھوڑوں کی گندی چیزیں بھی ثواب میں شامل ہوجاتی ہیں تو اصل گھوڑے کا کیا پوچھنا اور پھر مالک کے درجہ کا کیا کہنا،گھوڑا صرف مثال کے لیے ہے اب گولی،بارود،بندوق،توپ،ہوائی جہاز اور راکٹ جو جہاد کے لیے ہوں سب کا یہ ہی حکم ہے۔ ۲۶؎ یعنی یہ سب کام کرتا ہے گھوڑا اور نیکیاں پاتا ہے اس کا مالک اگرچہ مالک نے ارادہ بھی نہ کیا ہو اس کی وجہ ابھی بیان ہوچکی۔ ۲۷؎ یعنی گدھوں میں زکوۃ واجب نہیں بلکہ ایک قاعدہ کلیہ کے ماتحت ان میں ثواب ہے کہ اگر گدھے،خچر وغیرہ نیک نیتی سے پالے گئے تو ان میں ثواب ہےاور اگر بدنیتی سے پالے گئے تو عذاب اور اگر دنیوی کاروبار کے لیے ہیں تو نہ ثواب نہ عذاب،چونکہ اس آیت کے الفاظ تھوڑے ہیں اور مضامین و احکام بہت زیادہ اس لیے اسے جامعہ فرمایا گیا اور چونکہ اس مضمون کی یہ ایک ہی بے مثال آیت ہے اس لیے اسے فاذۃ فرمایا گیا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھوڑوں میں زکوۃ ہے،گدھوں اور خچروں میں نہیں جیساکہ اوپرعرض کیا گیا،ہاں اگر گدھے و خچر تجارتی ہیں تو ان میں زکوۃ تجارت ہوگی۔