Brailvi Books

مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد سوم
1 - 5479
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کتاب الزکوۃ

زکوۃ  کا بیان  ۱؎
الفصل الاول

پہلی فصل
۱؎ زکوۃ  کے لغوی معنی ہیں پاکی اور بڑھنا، رب تعالٰی فرماتا ہے:"قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ تَزَکّٰی"۔چونکہ زکوۃ کی برکت سے نفس انسانی بخل کے میل سے پاک و صاف ہوتاہے،نیز اس کی وجہ سے مال میں برکت ہوتی ہے اس لئے اسے زکوۃ کہتے ہیں۔زکوۃ کا سبب بڑھنے والا مال ہے اور اسکے شرائط: اسلام،آزادی،عقل،بلوغ اور قرض سے مال کا خالی ہوناہے لہذا کافر،غلام،بچے اور دیوانے پر زکوۃ  فرض نہیں۔حق یہ ہے کہ زکوۃ کا اجمالی حکم ہجرت سے پہلے آیا اور اس کی تفصیل       ۱۱ھ؁ میں بیان ہوئی لہذا  آیات قرآنیہ میں تعارض نہیں۔کُل چار مالوں میں زکوۃ فرض ہے:سونا چاندی،مال تجارت، جنگل میں چرنے والے جانور،زمینی پیداوار۔(از مرقاۃ و اشعہ)تفصیلی احکام کتب فقہ میں دیکھو۔پیداوار کی زکوۃ دسواں یا بیسواں حصّہ ہے،باقی مال تجارت و سونے چاندی کا چالیسواں حصّہ۔
حدیث نمبر 1
روایت ہے حضرت ابن عباس سے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف روانہ کیا ۱؎ تو فرمایا کہ تم اہلِ کتاب قوم کے پاس جارہے ہو۲؎ تو انہیں اس گواہی کی دعوت دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقینًا محمد اﷲ کے رسول ہیں۳؎   اگر وہ اس میں فرماں برداری کریں تو انہیں بتانا کہ اﷲ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائیں۴؎ پھر اگر  وہ یہ بھی مان جائیں تو انہیں سکھانا کہ اﷲ نے ا ن پر زکوۃ فرض کی ہے۵؎  جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور انہی کے فقیروں پر لوٹائی جائے گی۶؎ پھر اگر یہ بھی مان لیں تو ا ن کے بہترین مالوں سے بچنا ۷؎ اورستم رسیدہ کی بددعا سے ڈرنا کہ اس کے اور رب کے درمیان کوئی آڑ نہیں۸؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو یمن کا گورنر بناکربھیجا اور خود بنفس نفیس انہیں ثنیۃ الوداع تک پہنچانے گئے حضرت معاذ بحکم سرکار سواری پر تھے اورحضور انورصلی اللہ علیہ وسلم پیدل،ان سے جدا ہوتے وقت فرمایا کہ اب تم میری قبر پر آؤ گے اور مجھے نہ پاؤ گے جس پر حضرت معاذ بہت روئے۔خیال رہے کہ حضرت معاذ یمن پر جہاد کرنے نہیں جارہے تھے وہ تو پہلے ہی قبضہ میں آچکا تھا بلکہ وہاں کے حاکم بن کر۔

۲؎  اگرچہ یمن میں اہل کتاب بھی تھے اور مشرکین بھی مگر چونکہ اہل کتاب مشرکین سے بہتر ہیں اس لیے خصوصیت سے ان کا ذکر فرمایا۔

۳؎  یعنی صرف مشرکین کو"لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ"کی دعوت دو اور تمام کفار کو"مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ"کی کیونکہ مشرکین توحید کے منکر ہیں اور باقی موحد،کفار و اہل کتاب توحید کے تو قائل ہیں مگر رسالت مصطفوی کے منکر۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ہر کافر کو مسلمان بناتے وقت وہ ہی چیز پڑھائی جائے جس کا وہ منکر ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفار شرعی احکام کے مکلف نہیں اور یہ کہ کفار کو اسلام لانے پر مجبور نہ کیا جائے گا"لَاۤ اِکْرَاہَ فِی الدِّیۡنِ"اور یہ کہ تبلیغ نرمی و خوش اخلاقی سے چاہیئے  اور یہ کہ ذمی کفار کو تبلیغ اسلام کرنا سنت ہے  اور حکام اور آفیسران صرف ملکی انتظام ہی نہ کریں بلکہ دینی تبلیغ بھی کریں حاکم مبلغ بھی ہونا چاہیئے  اور یہ کہ آفیسران و حکام خودبھی شرعی احکام سے واقف ہونے چاہئیں ورنہ وہ تبلیغ نہیں کرسکتے۔

۴؎  یعنی جب وہ مسلمان ہوجائیں تو انہیں نماز کے احکام سناؤ سکھاؤ،چونکہ اسلام میں سارے احکام سے پہلے نماز کا حکم آیا،نیز یہ عبادت بدنی ہے،نیز یہ ہرمسلمان پر فرض ہے اس لیے کلمہ پڑھانے کے بعد ہی اس کا ذکر فرمایا۔خیال رہے کہ یہاں نماز جنازہ،عیدین،وتر وغیرہ کا ذکر نہ فرمایاصرف پانچ نمازوں کا فرمایا یا تو اس وقت ان کا حکم نہ ہوا تھا یا وہ تمام چیزیں پانچ نمازوں کے تابع فرمادی گئیں یا یہاں تمام احکام شرعیہ کا ذکر نہیں ہے خاص خاص کا ہے اسی لیے روزے کا ذکر نہیں زکوۃ کاہے حالانکہ روزہ زکوۃ سے پہلے فرض ہوچکا تھا۔لہذا اس حدیث کی بنا پر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ نماز عید یا وتر واجب نہیں اور نہ یہ حدیث حنفیوں کے خلاف ہے۔

۵؎  یہاں اِنْ بمعنی اِذَاہے یعنی جب وہ نماز کے احکام سیکھ لیں تو زکوۃ کے احکام سکھاؤ،آہستگی سے تبلیغ کرو کہ انہیں سکھانا مقصود ہے نہ صرف بتادینا۔حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ مسلمان ہونے کے بعد نماز کو فرض مان لیں تب تو  زکوۃ  سکھانا اور اگر نماز   کی فرضیت سے انکارکردیں تو زکوۃ نہ سکھاناکیونکہ مسلمان کا نماز سے انکار کرنا ارتداد ہے اورکسی کو مرتد ہوجانے کی اجازت نہیں لہذا حدیث پر کوئی بھی اعتراض نہیں اور زکوۃ کے لیے نماز شرط ہے۔

۶؎  یعنی ہم ٹیکس کی طرح تم سے زکوۃ وصول کرکے مدینہ منورہ  نہ لے جائیں گے اور خود نہ کھائیں گے تاکہ تم سمجھو کہ اسلام کی اشاعت کھانے کمانے کے لیے ہے بلکہ تمہارے مالداروں سے زکوۃ لے کر تمہارے ہی فقراء کو دے دی جائے گی۔اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:(۱)ایک یہ کہ کافر زکوۃ نہیں دے سکتے۔(۲)دوسرے یہ کہ بلاسخت مجبوری ایک جگہ کی تمام زکوۃ دوسری جگہ منتقل نہ کی جائے۔(۳)تیسرے یہ کہ مالدار صاحب نصاب زکوۃ نہیں لے سکتا جیساکہ لفظ فقراء اور ضَمِیْرُھُمْسے معلوم ہوا۔ ضرورۃً زکوۃ کو منتقل کرنا بالکل جائز ہے جیسے کہ غنی کے اہل قرابت فقیر دوسرے شہر میں رہتے ہوں یا دوسری جگہ سخت فقر و تنگدستی ہویا دوسری جگہ صدقہ کا ثواب زیادہ ہو لہذا اپنی کچھ زکوۃ مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ بھیجوانا جیسا کہ آج کل رواج ہے بالکل جائز ہے۔خیال رہے کہ یہاں اغنیاء سے مراد بالغ عاقل مالدار مراد ہیں کیونکہ نماز کی طرح زکوۃ بھی بچے اور دیوانے پر فرض نہیں،یہ بھی خیال رہے کہ باطنی مال یعنی سونے چاندی وغیرہ کی زکوۃ خود غنی ہی ادا کرے گا اور ظاہری مال جانور پیداوار کی زکوۃ حاکم اسلام وصول کرکے اپنے انتظام سے خرچ کرے گا،یہاں تُؤخَذُ میں دونوں صورتیں داخل ہیں۔

۷؎ یعنی زکوۃ میں ان کے بہترین مال نہ وصول کرو بلکہ درمیانی مال لو ہاں اگر خود مالک ہی بہترین مال اپنی خوشی سے دے تو ان کی مرضی ہے لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں"لَنۡ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ"۔اس جملہ سے اشارۃً معلوم ہوا کہ ہلاک شدہ مال کی زکوۃ نہ لی جائے گی کیونکہ اموالھم ارشاد ہوا۔

۸؎  یعنی اے معاذ!تم حاکم بن کر یمن جارہے ہو وہاں کسی پرظلم نہ کرنا،نہ بدنی ظلم،نہ مالی نہ زبانی کیونکہ اﷲ تعالٰی مظلوم کی بہت جلد سنتا ہے۔اس میں درحقیقت تاقیامت حکام کو عدل کی تعلیم ہے ورنہ صحابہ کرام ظلم نہیں کرتے،حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی نے کہا تھا"لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیۡمٰنُ وَجُنُوۡدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوۡنَ"کہیں تم اے چیونٹیو حضرت سلیمان اور ان کے لشکر سے کچلی نہ جاؤ اور انہیں خبربھی نہ ہو۔چیونٹی کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر کے صحابہ چیونٹی پربھی ظلم نہیں کرتے لہذا اس حدیث سے صحابہ کا ظلم ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔
Flag Counter