۱؎ جیسےجسمانی غذاؤں میں مختلف لذتیں ہیں،ایسے ہی روحانی عذاؤں،ایمان و اعمال میں بھی مختلف مزے ہیں،اور جیسے ان غذاؤں کی لذتیں وہی محسوس کرسکتا ہےجس کے حواس ظاہری درست۔ایسے ہی ان ایمانی غذاؤں کی لذتیں وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جس کی روح درست ہو اور جیسے ظاہری حواس درست کرنے کی مختلف دوائیں ہیں،ایسے ہی ان حواس کے درست کرنے والی روحانی دوائیں ہیں۔اس حدیث میں ان ہی دواؤں کا ذکر ہے۔حضور جسمانی و روحانی حکیم مطلق ہیں۔جو ایمان کی حلاوت پالیتا ہے وہ بڑی بڑی مشقتیں خوشی سے جھیل لیتا ہے۔جاڑوں کی نماز،جہاد خنداں پیشانی سے ادا کرتا ہے،کربلا کا میدان اس حدیث کی زندہ جاوید تفسیر ہے،یہ لذت ہی ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے،اسی سے رضا بالقضاء نصیب ہوتی ہے۔
۲؎ یعنی مال و دولت،زن فرزند وغیرہ تمام دنیاوی نعمتیں،اس میں قرآن،کعبہ و مدینہ منورہ وغیرہ داخل نہیں کہ ان کی محبت عین اﷲ رسول کی محبت ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور سے اﷲ والی محبت چاہئیے۔محبت کی بہت قسمیں ہیں:ماں سے محبت اورقسم کی ہے،بیوی سے اور طرح کی،اولاد سے اور طرح کی،بہن بھائی سے اور نوعیّت کی۔حضور سے محبت اسی نوعیت کی چاہئیے جس نوعیت کی اﷲ سے ہو،یعنی محبت ایمانی وعرفانی۔ھُمَا فرمانے سے معلوم ہوا کہ اﷲ اور رسول کے لیے ایک ضمیرتثنیہ آسکتی ہے۔جہاں ممانعت ہے وہاں برابری کے احتمال کے موقعہ پر ہے۔لہذا احادیث میں تعارض نہیں۔خیال رہے کہ یہاں محبت سے طبعی محبت مراد ہے نہ کہ محض عقلی۔
۳؎ یعنی بندوں سےمحض اس لیےمحبتکرے کہ رب راضی ہوجاوے،دنیاوی غرض اس میں شامل نہ ہو۔استاذ،شیخ،حتی کہ ماں باپ اولاد سے اس لئے محبت کرے کہ رضاء الٰہی کا ذریعہ ہیں اور سنت اسلام۔یہ محبت دائمی ہے،دنیاوی محبتیں جلد ٹوٹ جانے والی ہیں۔رب فرماتا ہے:"اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیۡنَ "۔
۴؎ یعنی کفر اور کفار سے طبعی نفرت ہوجاوے۔اسلام کی توفیق کو رب کی نعمت جانے،کفار سے ایسے بچے جیسے سانپ سے کہ سانپ دشمن جان ہے اور یہ لوگ دشمن ایمان۔