۱؎ آپ کا نام عبداﷲ بن عمر ہے،ظہور نبوت سے ایک سال پہلے پیداہوئے، ۷۳ ھ میں شہادت ابن زبیر سے تین ماہ بعد وفات پائی، ذی طویٰ کے مقبرہ مہاجرین میں دفن ہوئے،چوراسی سال عمر شریف پائی،بڑے متقی اور اعمل بالسنۃ تھے۔رضی اللہ عنہ۔(مرقاۃ وغیرہ)
۲؎ یعنی اسلام مثل خیمہ یاچھت کے ہے اور یہ پانچ ارکان اس کے پانچ ستونوں کی طرح کہ جو کوئی ان میں سے ایک کا انکار کرے گا وہ اسلام سے خارج ہوگا،اور اس کا اسلام منہدم ہوجاویگا۔خیال رہے کہ ان اعمال پر کمال ایمان موقوف ہے اور ان کے ماننے پر نفس ایمان موقوف،لہذا جوصحیح العقیدہ مسلمان کبھی کلمہ نہ پڑھے یانماز روزہ کا پابند نہ ہو،وہ اگرچہ مؤمن تو ہے مگر کامل نہیں،اور جو ان میں سےکسی کا انکارکرے وہ کافر ہے۔لہذا حدیث پر کوئی اعتراض نہیں،نہ اعمال ایمان کے اجزاء ہیں۔
۳؎ اس سےسارےعقائد اسلامیہ مرادہیں جوکسی عقیدے کامنکرہے وہ حضورکی رسالت ہی کا منکرہے۔حضور کو رسول ماننے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کی ہر بات کو مانا جاوے۔
۴؎ ہمیشہ پڑھنا،صحیح پڑھنا،دل لگا کر پڑھنا،نماز قائم کرنا۔
۵؎ اگر مال ہو تو زکوۃ و حج ادا کرنا فرض ہے ورنہ نہیں مگر انکا ماننا بہرحال لازم ہے۔نماز ہجرت سے پہلے معراج میں فرض ہوئی،زکوۃ وروزہ ۲ھ میں،اور حج ۹ ھ میں فرض ہوئے۔