وقت کی قدر کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی اہمیت کو جانتا ہے مثلاً کوئی طالِب عِلْم چھٹیاں کرتا یا پڑھائی میں سُستی کا مُظاہَرہ کرتا ہےتو اسے ضرور کہا جاتا ہے:’’یہاں وَقْت کیوں ضائع کررہے ہو؟کوئی کام کاج ہی کرلو، ہوسکتا ہے وہاں کامیاب ہوجاؤ۔‘‘ اسے یہ مشورہ اس لئے دیا جاتا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ یوں وَقْت برباد کرکے وہ کبھی عِلْم حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ جو طالِب عِلْم وقت برباد کرتا ہے اس کا مقصود علم حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ تو وقت گزاری کے لیے تعلیمی اداروں میں آتا جاتا ہے اور اپنی زِنْدَگی کے انمول لمحات کو بے مقصد کاموں میں برباد کرتا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب دنیا میں کوئی بھی حقیر سی شے خواہ وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو،بے مقصد پیدا نہیں کی تو کیا انسان کو کسی مقصد کے بغیر ہی پیدا کر دیا ہوگا؟جیسا کہ پارہ 18 سورۃُ المومنون آیت نمبر 115 میں ارشاد ہوتا ہے:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا ترجمۂ کنزالایمان:تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا
وَّ اَنَّکُمْ اِلَیۡنَا لَا تُرْجَعُوۡنَ ﴿۱۱۵﴾ اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔
(پ۱۸، المومنون:۱۱۵)
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی خزائنُ العرفان میں اس آیتِ مقدّسہ کے تحت فرماتے ہیں: اور (کیا