Brailvi Books

ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1438جنوری2017
58 - 90
تذکرۂ صالحات
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدتُنا زینب بنتِ خزیمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا
(محمد خرم شہزاد عطاری مدنی)
ام المؤ منین حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا کا شمار تاریخ کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے ،جو غریب پروری ، مسکین نوازی ، رحم دلی ، سخاوت اور فیاضی جیسے اوصاف میں نہایت بلند مقام پر فائز ہیں ۔سخی اور فیاض طبیعت نیز یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے اور انہیں کثرت کے کھانا کھلانے  کے باعث آپ کا لقب ہی ام المساکین (مسکینوں کی ماں) مشہور ہوگیا تھا ۔حضرت سیدنا علامہ احمد بن محمد قسطلانی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :”وَکَانَتْ تُدعٰی  فِی الْجَاھِلیَّۃِ اُمُّ الْمَسَاکِیْنَ لِاِطْعَامِھَااِیَّا ھُمیعنی مساکین کو کھانا کھلانے کے باعث زمانۂ جاہلیت میں ہی آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہاکو امُ المساکین کے لقب سے پکاراجانے لگا تھا۔“(المواہب اللدنیہ، ج1، ص411)
نام و نسب:آپ کا نام زینب ہے ۔ کہتے ہیں کہ زینب ایک خوب صورت اور خوشبو دار درخت کا نام ہے، اسی نسبت سے  عورتوں کا یہ  نام رکھا جاتا ہے۔(تہذیب اللغہ،ج13،ص230)
آپ کے والد خُزَیمہ بن حارث ہیں ۔ حضرت  مُضَر  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں جا کر آپ کا نسب سرورِ عالَم،نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے نسب شریف سے مل جاتا ہے ۔ اس لیے آپ قریشی ہیں۔
نکاح :سرورِ کائینات ، شہنشاہِ موجودات  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حبالۂ عقد میں آنے سے پہلے اصح  قول کے مطابق آپ حضرت سیدنا عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے ساتھ رشتہ ازواج میں منسلک تھیں ۔(المواہب اللدنیہ ،ج1،ص411)یہ رسول ِ کریم ، رؤوف رحیم  کے پھو پھی زاد بھائی ہیں اور قدیم الاسلام صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں شامل ہیں جو رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دار ِارقم (مکۂ مکرمہ )میں تشریف لے جانے سے پہلے اسلام لے آئے تھے ۔ غزوۂ بد رو احد میں شرکت کی اور احدمیں ہی جامِ شہادت نوش فرمایا۔(اسد الغا بہ،ج3،ص195)
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے حضور اقدسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجیت کا  شرف پایا اور ام المؤ منین کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں ۔اس وقت حرمِ نبوی میں تین ازواج ِ مطہرات حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہنَّ پہلے سے موجود تھیں جبکہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا کم و بیش چھ برس پہلے ابتقال ہو چکا تھا ۔روایت میں ہے کہ جب سرکارِ  رسالت مآب  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے اپنا معاملہ آپ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سپرد کردیا ، پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے نکاح فرمالیا اور ساڑھے بارہ اوقیہ مہرِ نکاح مقرر فرمایا۔(طبقات ابن سعد، ج8،ص91)