بھی جس کو یہ روپیہ پہنچا۔ اب ہمارے گھر کوئی خوشی کا موقع آیا ہم نے اس کو بلایا تو ہماری پوری نیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کم از کم دس روپے ہمارے گھر دے تاکہ آٹھ روپے ادا ہوجائیں اور دو روپے ہم پر چڑھ جائیں ادھر اس کو بھی یہ ہی خیال ہے کہ اگر میرے پاس اتنی رقم ہو تو میں وہاں دعوت کھانے جاؤں ورنہ نہ جاؤں، اب اگر اس کے پاس اس وقت روپیہ نہیں تو وہ شرمندگی کی وجہ سے آتا ہی نہیں اور اگر آیا تو دو چار روپے دے گیا۔ بہرحال ادھر سے شکایت پیدا ہوئی، طعنے بازیاں ہوئیں، دل بگڑے۔ بعض لوگ تو قرض لے کر نیوتا ادا کرتے ہیں۔“(اسلامی زندگی، صفحہ 25، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”جن لوگوں میں برادری نظام ہے ان میں نیوتا قرض ہی شمار کیا جاتا ہے، وہ لکھ کر رکھتے ہیں، کس نے کتنا دیا ہے، اُس کے یہاں شادی ہونے کی صورت میں اتنا ہی واپس کرتے ہیں، اِن برادریوں میں نیوتا قرض ہی سمجھا جاتا ہے اور جن برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ دوستی، تعلقات اور عقیدت کی وجہ سے شادی میں کچھ دیتے ہیں وہ ہدیہ ہے۔“(وقارالفتاوی، جلد 3، صفحہ 117، بزم وقارالدین، باب المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبہ
محمد قاسم القادری
23ذیقعدۃ الحرام1437ھ/27اگست2016ء
علم و حکمت کے مدنی پھول
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:
(1)...اعلیٰ حضرت کے ”اَقُوْل“ پر ہماری عقول قربان، ان کا اَقُوْل ہمیں قبول۔(تعارف امیر اہلسنت، ص63)
(2)...علما کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔(تعارف امیر اہلسنت، ص57)
(3)...علما کو ہماری نہیں بلکہ ہمیں علما کی ضرورت ہے۔(تعارف امیر اہلسنت، ص57)