کرتا (دیکھتا) ہے اور پہلا دوسرے کو اسی طرح کی چیز دیتا ہے جیسی اس نے دی تھی۔(ردالمحتار، کتاب الہبہ، جلد8، صفحہ 583، کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:”نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:”اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ (اور یہ مسئلہ فتاوی خیریہ میں ہے۔) چارہ کار (بچنے کی صورت) یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ قرض کی وصولی کے متعلق فرماتے ہیں:”قرض حسنہ دے کر مانگنے کی ممانعت نہیں، ہاں مانگنے میں بے جاسختی نہ ہو: (وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-) (ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔)
اور اگر مدیون (مقروض) نادار (مفلس) ہے جب تو اسے مہلت دینا فرض ہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ پہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ لَیت و لَعل (ٹالم ٹول) کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع و ملامت (برا بھلا کہنا) جائز۔ قَالَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمُ ولَیُّ الْوَاجِدِ يَحِلُّ مَالُہُ وَعِرْضُہُ (ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، غنی کا (ادائے قرض میں) ٹالم ٹول کرنا ظلم ہے اور مال ہوتے ہوئے ٹالم ٹول کرنا اس کے مال اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔) (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 585-586، رضا فاؤنڈیشن، مرکز الاولیا لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں، ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا۔ عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دئیے جاتے ہیں تو ہر ایک شخص کا نام اور رقم تحریر کر لیتے ہیں جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جاچکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اُس نے دئیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پاکر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔“(بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 79، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)ادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھجی ہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گ
حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”نیوتا بھی بہت بری رسم ہے جو غالباً دوسری قوموں سے ہم نے سیکھی ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ ہم نے کسی کے گھر چار موقعوں پر دو دو روپے دئیے ہیں تو ہم بھی حساب لگاتے رہتے ہیں اور وہ