Brailvi Books

ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1438جنوری2017
17 - 90
کرے گا تو اس پر اظہارِ ناراضگی و مطالبے میں سختی فی نفسہٖ (بذاتِ خود) جائز لیکن عرفاً معیوب (بُرا) اور عموماً دوسرے کثیر گناہوں مثلاً قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلق توڑ دینا) وغیرہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا غیربرادری کے لوگ عقیدت یا دوستی میں دیتے ہیں وہاں یہ رقم ہدیہ و تحفہ ہوتی ہے اور اس کے تمام احکام یہاں بھی جاری ہوں گے لہٰذامثلاً کسی نے 1000 روپے دئیے اور اس نے لے کر خرچ کر لیے تو اب دینے والا اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور جب لینے والے پر واپس کرنا ہی ضروری نہیں تو نہ دینے کی وجہ سے اس پر اظہارِ ناراضگی اور طعن و تشنیع کرنا بہت قبیح (بُرا) اور بری حرکت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ بہر صورت (ہر حال میں) ہونا یہ چاہیے کہ اس رسم کو ختم کیا جائے اور صرف رضائے الٰہی پانے کے لیے جس کے ہاں دعوت ہو اسے رقم وغیرہ دی جائے تا کہ ہمیں اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی۔ اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ہم اس قرض سے بچ جائیں انہیں چاہیے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا تو میں بھی دینے والے کی تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی وہ قرض نہیں، تحفہ ہوگی اور بعد میں واپس نہ بھی کی تو اس پر کوئی مواخذہ (بُرا) نہیں۔ اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے(وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-) ترجمۂ کنز الایمان: اور  تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔(پارہ 21، سورۃ الروم، آیت 39) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں (جاننے والوں) کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہ تعالٰی (اللہ کی رضا کے لیے) نہیں ہوا۔“(تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں: فتاوی خیریہ میں ہے: شادی وغیرہ میں ایک شخص جو چیزیں دوسرے کو بھیجتا ہے، اس کے بارے میں سوال ہوا کہ کیا ان کا حکم قرض کی طرح ہے اور اسے ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جواب ارشاد فرمایا: اگر عرف یہ ہو کہ لوگ بدل کے طور پر دیتے ہیں تو ادائیگی لازم ہے، اگر دی جانے والی مثلی ہے تو اس کی مثل لوٹائے اور قیمتی ہے تو قیمت واپس کرے۔ اور اگر عرف اس کے خلاگ ہو اور دینے والے یہ چیزیں بطور تحفہ دیتے ہوں نیز اس کے بدلے میں ملنے والی چیز کی طرف ان کی نظر نہ ہوتی ہو تو یہ تمام احکام میں ہبہ (تحفے کے طور پر دی گئی چیز) کی طرح ہے لہٰذا اس چیز کے ہلاک ہونے یا اس کو ہلاک کرنے کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا (یعنی اسے واپس نہیں لوٹایا جاسکے گا)۔ اور اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ جو معہود (ذہن میں طے) ہوتا ہے وہ مشروط کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عرف ہمارے شہروں میں بھی پایا جاتا ہے، ہاں بعض علاقوں میں لوگ اسے قرض شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر دعوت میں وہ ایک لکھنے والے کو بلاتے ہیں جو انہیں ملنے والی چیزیں لکھتا ہے اور جب دینے والا کوئی دعوت کرتا ہے تو وہ اسی لکھے ہوئے کی طرف مراجعت