Brailvi Books

ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الثانی1438جنوری2017
16 - 90
دار الافتاء اہلِسنّت (Dar-ul-ifta  Ahl-e-Sunnat)
(دار الافتاء اہلِسنّت(دعوتِ اسلامی)مسلمانوں کی شرعی راہنمائی میں مصروفِ عمل ہے، تحریری، زبانی، فون اور دیگر ذرائع سے ملک وبیرونِ ملک سے ہزار ہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں، جن میں سے پانچ منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔)
شادی میں دیے جانے والے نیوتا کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے خاندان میں ولیمہ وغیرہ دعوتوں کے مواقع پر کچھ نہ کچھ پیسے دیئے جاتے ہیں اور نیت یہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ہاں شادی وغیرہ ہوگی تو یہ کچھ زیادتی کے ساتھ ہمیں مل جائیں گے مثلاً 1000 ہم نے دیا ہے تو یہ 1500 دیں گے اور ہم اگلی بار اس سے بھی کچھ زیادہ دیں گے، یہ باقاعدہ رجسٹر پر لکھا بھی جاتا ہے، اگر بالکل ہی وہ نہ دے تو ناراضگی کا اظہار اور برا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر (پوچھنے کی بات) یہ ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں پہلے کم پیسے دینا پھر زیادہ پیسے لینا اور بالکل ہی نہ دیں تو نا راضگی کا اظہار کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟
سائل:محمد سعید عطاری (مدرس کورس، صدر، باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:(1)جہاں برادری نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ یہ لینا جائز ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے البتہ اس رقم کا واپس کرنا فرض ہے اور اس صورت میں جس نے بغیر کسی عذرِ شرعی کے وہ رقم واپس نہیں کی، اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور اسے برا بھلا کہنا جائز و درست ہے۔ (2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیرخواہی کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا (برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ جہاں برادری نظام میں اسے لکھ کر رکھتے ہیں وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو لوٹاتا ہے تو اس پر مزید کچھ قرض چڑھا دیتا ہے مثلاً یہ 1000 روپے دے کر آیا تھا تو وہ اسے 1500 دیتا ہے جس میں 1000 کے ذریعے قرض سے سبکدوش ہوتا ہے اور باقی 500 اس پر مزید قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی کرنا فرض ہے اور اگر یہ بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں کوتاہی