مچھلی پائی جاتی ہے جو ہاتھ بھرکی(یعنی تقریباً آدھ گز لمبی) ہوتی ہے اُسے پکڑا جائے تو وہ مَرتی نہیں بلکہ پُھدَکتی رہتی ہے اور اگر اس کا کوئی ٹکڑاکاٹ کرآگ پر رکھا جائے تو وہ ٹکڑا ایک دم اُچھل کر آگ سے باہَر آجاتا ہے اور بسااوقات آدَمی کے منہ پر آ پڑتا ہے جب اِس مچھلی کوپکانا ہو تو پتیلی کے ڈھکن پر لوہا یا وزنی پتّھررکھ دیا جائے تاکہ اس کے ٹکڑے اچھل کر پتیلی میں سے باہَر نہ نکل پڑیں ،جب تک وہ مکمَّل طورپر پک نہیں جاتی مَرتی نہیں خواہ اُس کے ہزار ٹکڑے ہی کیوں نہ کر دیئے جائیں ۔ (حَیاۃُ الحَیَوان لِلدَّمِیری ج۲ ص۴۱)
زندہ جزیرہ!
منقول ہے: جب سکندر بادشاہ کی فوج ہندوستان سے بحری جہاز میں روانہ ہوئی تو شام کے وَقْت سَمُندر میں ایک جزیرہ ( یعنی خشکی کا ٹکڑا جس کے چاروں طرف پانی ہو، ٹاپو) نظر آیا ، جہاز لنگر انداز ہوا اور لشکر اُس جزیرے پر اترپڑا۔ کُھونٹے وغیرہ گاڑنے تک تو خیر رہی مگر جب اُن لوگوں نے کھانا وغیرہ پکانے کیلئے جا بجا آگ جلائی تو جزیرے میں ایک دم حرکت پیدا ہوئی اور وہ مکمَّل طور پر پانی کے اندر اتر گیا جس سے بَہُت سارے سپاہی ڈوب گئے! وہ جزیرہ دراصل زمین کاکوئی ٹکڑا نہ تھا، ہندوستان کے سَمُندر میں پائی جانے والی دیو ہیکل مچھلی رارکال تھی! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قُدرت سے یہ مچھلی اِس قدر لمبی چوڑی ہے کہ جب سَطحِ سَمُندر پر اُبھر آتی ہے تو چھوٹاسا جزیزہ معلوم ہوتی ہے! معلوم ہوا کہ رار کال مچھلی نہایت سخت جان ہوتی ہے جبھی تو اُس کی کھال میں کُھونٹے گاڑے گئے تب بھی اُس پر کچھ اثر نہ ہوا مگر جب آگ