فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السّلام کے نزدیک یہ دونوں الگ الگ مچھلیاں ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ جِرِّیْث مچھلی کے متعلِّق فرماتے ہیں :’’ جِرِّیْث ایک کثیرُ الْوُجُود مچھلی سَواحِل (سمندر کے کناروں ) پر اَرْزانی ( یعنی کثرت)سے بکنے والی ہے۔
حکایت
حضرتِ سیِّدُنا امام محمد رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ’’ مَبْسُوط‘‘ میں روایت فرماتے ہیں :یعنی عَمْرَہ بِنْتِ اَبِی طُبَیْخ نے کہا: میں اپنی کنیز کے ساتھ جاکر ایک جِرِّیْث ایک قَفِیْز گیہوں کو(یعنی تقریبا 46کلو گرام گیہوں کے بدلے )خرید کرلائی جو زنبیل (زَمْ۔بِیل یعنی ٹوکری )میں نہ سمائی، ایک طرف سے سر نکلا رہا دوسری طرف سے دُم، اتنے میں مولا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا گزر ہوا، فرمایا: کتنے کو لی؟ میں نے قیمت عَرْض کی۔ فرمایا: ’’کیا (ہی) پاکیزہ چیز ہے اور کتنی اَرزاں (یعنی سَستی )اور مُتَعَلِّقِینپر کتنی وُسعت والی۔‘‘
جِرِّیث کے مُتَعلِّق مختلف اَقوال
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ مزید فرماتے ہیں : ’’حَیاۃُ الْحَیَوان‘ ‘میں ہے: جِرِّیْث یہ مچھلی ہے جو سانپ کے مُشابہ(یعنی ملتی جُلتی) ہے اس کی جمع جراثی ہے، اس کوجِرّی بھی کہتے ہیں ، فارسی میں اِسے مارماہی کہتے ہیں ، اور ہَمزہ کی بحث میں گزرا کہ یہ اَنْکَلَیس ہے ۔جاحِظ نے کہا: یہ پانی کا سانپ ہے اس کا یہ حکم ہے کہ وہ حلال ہے۔مگر فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السّلام ، جسے جِرِّیْث کہتے ہیں وہ یقینا ’’مارماہی ‘‘ (یعنی بام مچھلی )کے سواء دوسری مچھلی ہے کہ مُتُون و