وَجْہَہُ الْکَرِیْماور ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے جِرِّیْث اور نر مچھلیکی اِباحت (یعنی جائز ہونا ) مروی ہے جبکہ کسی اور سے اس کا خِلاف منقول نہیں ہے تو یہ اجماع ہوگیا۔
( بَدائِعُ الصَّنائِع ج۴ص۱۴۶، مُلَخّصاً)
مچھلی کی ہزاروں قسمیں ہیں
’’ بَدائِعُ الصَّنائِع‘‘ کی عبارت سے واضِح ہوا کہ مچھلی کی تمام ہی اَقسام حلال ہیں ہاں اتنا ضَرور ہے کہ مچھلی کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں اقسام ہیں بعض اقسام ایسی ہیں کہ جن میں عُلَماء کو صراحتیں کرنا پڑیں کہ یہ جانور مچھلی ہے اس کو غیر مچھلی کہنا دُرُست نہیں ۔بعض جانور وہ ہیں کہ جن کے مچھلی ہونے یا نہ ہونے میں اہلِ لُغَت کو اِختِلاف رہا جیسا کہ جِھینگا اس کے مچھلی ہونے یا نہ ہونے میں اختِلاف ہے لیکن دُرُست یہی ہے کہ یہ مچھلی ہے ۔اس بارے میں حتمی ضابِطہ یہ ہے کہ لُغَت اور اہلِ عرب کے عُرف کا اعتِبار معتبر ہوگاکہ عَرَبی میں جس کوسَمَک (یعنی مچھلی)کہتے ہیں احادیث میں اس کو حلال کیا گیا ہے اور اس لفظ کے دُرُست مَحْمَل کا تَعَیُّن اہلِ عرب صاحِبانِ لُغَت کا عُرْف ہی کر سکتا ہے ۔ البتَّہ جس چیز کے بارے میں مُتَعَیَّن(یعنی طے) ہو جائے کہ یہ مچھلی ہے تو اس کا کھانا حلال ہے ،چاہے اُس کیلئے سَمَک کے علاوہ کوئی اورلفظ مَثَلاً حُوت اورنُوْنوغیرہ استعمال کیا گیا ہو۔
سَمُندری عجائبات اَن گنت ہیں
مچھلی کی بَہُت ساری اَقسام وہ ہیں جن کے بارے میں شُروع ہی سے لوگوں میں