کے تصرُّف کے ساتھ پیش کی جاتی ہے:مچھلی کی کوئی حتمی(FINAL) تعریف تو فِقْہ یا لُغَت کی کُتُب سے نظر سے نہیں گزری قدیم(یعنی پرانے) اور جدید(یعنی نئے) ماہرین نے اس کے متعلِّق جو باتیں بیان کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مچھلی ٹھنڈے خون والا آبی(یعنی پانی کا) جانور ہے ، اس کا شمار اُن حیوانات میں ہوتا ہے جو فِقاریہ (Vertebrate) یعنی ریڑھ کی ہڈّی والے جانور ہیں ،لیکن بَہُت ساری مچھلیاں ایسی ہیں جن میں ریڑھ کی ہڈّی نہیں ہوتی۔سانس لینے کے لئے اکثر مچھلیاں گلپھڑے استعمال کرتی ہیں ۔ اکثر مچھلیاں انڈے دیتی ہیں لیکن بعض بچّے بھی جَنتی ہیں ،کچھ مچھلیاں ایسی ہیں جو پانی پر مختصر اُڑان بھی کرتی ہیں ۔
مچھلی کے سوا ہر آبی جانور حرام ہے
فِقْہِ حنفی کی مشہور کتاب’’ بَدائِعُ الصَّنائِع ‘‘میں ہے: ’’ مچھلی کے سوا پانی کے تمام جانور حرام ہیں ، مچھلی حلال ہے سِوائے اُس مچھلی کے جو خود مر کر پانی کی سَطح پر اُلَٹ گئی ہو۔ یہی ہمارے اَصحاب کا قَول ہے، مچھلی کی تمام اَقسام حلال ہونے میں برابر ہیں چاہے وہ جِرِّیْث ہو یا مارماہی (جوکہ سانپ سے ملتی جلتی ہوتی ہے ، اِسے ’’بام مچھلی ‘‘بھی بولتے ہیں وہ )ہویا اس کے علاوہ کوئی قسم، کیونکہ ہم نے مچھلی کے حلال ہونے پر جو دلائل ذکر کئے ہیں ان میں ایسی کوئی تفصیل نہیں کہ یہ مچھلی حلال ہے یا وہ مچھلی، سوائے اس کے جس کی دلیل کے ذَرِیعے تَخصِیص کی گئی(یعنی مخصوص کر لیا گیا) ہو۔ اورحضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی