حدیثِ مبارَک میں کثرتِ اُمّت کی ترغیب دلائی گئی ہے اورہمارے پیارے پیارے آقامصطَفٰے جانِ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بروزِ قیامت اِس اُمّت کے کثیر ہونے پر خوش ہونگے اور دیگر اُمَّتوں پر فَخر کریں گے لہٰذا اولاد کے حُصُول کی خواہش میں دنیا وآخِرت کی بھلائی پانے کے لئے اچّھی اچّھی نیتَّیں کرنی چاہئیں لیکن آج دنیا میں جو بے اولاد ہو تا ہے وہ عُمُوماً خوب دل جلاتا ہے اور بچّہ پانے کیلئے نہ جانے کیسے کیسے جتن کرتا ہے۔ اگر اس کا مَطْمَحِنظر (یعنی مقصدِ اصلی)فَقَط گھر کی زینت اور دُنیا کی راحت ہے، حُصولِ اولاد سے مقصود آخِرت کی مَنفَعت کی کوئی اچّھی نیّت نہیں، تو ایسا بے اولاد آدَمی نادانِستہ طور پر گویا'' کسی '' کے دُنیا میں