گیا۔ کچھ دیر بعد دَوبارہ دروازے پر دَستک پڑی، غلام نے دروازہ کھولا تووُہی فقیر نظر آیا ، اب کی بار اُس نے کہا: جاؤ! اپنے آقا سے کہو، مَیں مَلَکُ الْمَوت (عَلَیْہِ السَّلام) ہوں ۔ اُس مال کے نَشے میں دُھت اور یادِ خدا عَزَّوَجَلَّسے غافِل شخص کوجب یہ پتا چلا توتھرّا اُٹھااور گھبرا کر اپنے غلاموں سے کہنے لگا: ’’ جاؤ! اور اُن سے اِنتِہائی نَرمی کے ساتھ پیش آؤ۔ ‘‘ غُلام باہَر آئے اور مَلَکُ الْمَوتعَلَیْہِ السَّلامکی مِنّت سَماجت کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : ’’ آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی رُو ح قَبْض کر لیجئے اور اُسے چھوڑ دیجئے ۔ ‘‘ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا: ‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ پھر اُس مالدار شخص سے کہا: تجھے جو وَصِیَّتکرنی ہے ابھی کرلے، میں تیری رُوح قبْض کئے بِغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔ یہ سُن کروہ مالدار شخص اور اُس کے اَہْل وعِیال چیخ اُٹھے اور رَو نا دَھونا مچا دیا، اُس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا: سونے چاندی اور خزانوں کے صَندُو ق کھول کر میرے سامنے ڈھیر کردو۔ فوراً حُکْم کی تعمیل ہوئی اوراس کے سامنے زندَگی بھر کے جمْع کئے ہوئے خزانے کا اَنبار لگ گیا۔ خزانے کے اَنبار کو مخاطَب کرکے وہ مالدار شخص کہنے لگا: ’’ اے ذلیل وبَدترین مال ودولت! تجھ پر لعنت! میں تیری مَحَبَّت کی وجہ سے برباد ہوا، ہائے ! ہائے ! میں تیرے ہی سبب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت اورتیاریٔ آخِرت سے غافِل رہا ۔ ‘‘ خزانے کے اَنبار سے آوازآئی: اے مال و دولت کے پَرَستارپکّے دنیا دار اور غفلت شِعار! مجھے مَلامَت کیوں کرتا ہے؟ کیا تُو وُہی نہیں جو دُنیا داروں کی نظروں میں ذلیل وخوار تھا! پھرمیری وجہ سے آبرو دار بنا