نہیں ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۲۵ص۱۷۲حدیث۴۲۱ داراحیاء التراث العربی بیروت)
جب کوئی لقمہ لیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے ایک مہینے کے وعدے پر ایک کنیز سَو دینار کو خریدی، رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا اُسامہ سے تعجُّب نہیں کرتے جس نے ایک مہینے کے وَعدے پر (کنیز) خریدی، بیشک اُسامہ کی امّید لمبی ہے ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں توجب آنکھ کھولتا ہوں یہ گُمان ہوتا ہے کہ پلک جھپکنے سے پہلے موت آجائیگی اور جب پِیالہ منہ تک لے جاتا ہوں کبھی یہ گمان نہیں کرتا کہ اس کے رکھنے تک زندہ رہوں گا اور جب کوئی لقمہ لیتا ہوں گمان ہوتاہے کہ اسے حَلق سے اُتارنے نہ پاؤں گا کہ موت اُسے گلے میں روک دے گی، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے ضَرور آنے والی ہے تم تھکا نہ سکو گے۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۴ ص۱۰۸ حدیث۵۱۲۷ دارالفکربیروت)
یہ سب ( تو) مُنْفَرِدکا بیان (ہے ) رہا عِیا ل دار (تو) ظاہِر ہے کہ وُہ اپنے نَفس کے حق میں ‘’ مُنْفَرِد’‘ ہے، تو خوداپنی ذات کے لیے اُسے اُنہِیں اَحکام کا لحاظ چاہئے اورعِیال کی نظر سے اُس کی صورَتیں اور ہیں ان کابیان کریں ۔
{12}عِیال کی کَفالَت شَرع نے اِس پرفَرض کی، وہ ان کو تَوَکُّل و تَبَتُّل (دنیا سے کَنارہ کشی ) وَ صَبْرْعَلَی الْفاقَہ (یعنی اوربھوک پیاس سے صَبر) پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو