مال کا اِستِعمال اوراُخرَوی وبال
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دُنیَوِی نعمتوں اور راحتوں سے مالا مال لوگوں کومال کے اِستِعمال کے وقْت خبردار رہنا چاہئے کہ اِس کے غَلَط اِستِعمال کا اَنجام اُخرَوِی وبال ہے، یونہی مال ودولت کی بے جا مَحَبَّت گناہوں پر اُ کساتی، دربدر پِھراتی، لُوٹ مار کرواتی حتّٰی کہ لاشیں گِرواتی ہے اور جب یہ دولت کسی مُحبِّ مال کے ہاتھ سے نکلنے پر آتی ہے تو بے حد ستاتی اور خُوب تڑپاتی اور رُلاتی ہے، لہٰذا ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین مال ودولت کے مُعامَلے میں نِہایَت ہی مُحتاط تھے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو الدَّرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا سَلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو ایک مکتوب روانہ فرمایا جس میں تھا: اے میرے بھائی! دُنیا سے اِتنا کچھ جمْع نہ کرو کہ حقِّ شکْر ادا نہ کر سکو، میں نے اَنبیاء کے تاجْدار، شَہَنْشاہِ اَبرار، دو۲ عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے کہ بروزِ قِیامت ایک ایسے مال دار شخص کو لایا جائے گا جس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرماں برداری میں زندَگی بَسَر کی ہو گی، پُلْ صراط پار کرتے ہوئے اُس کا مال اس کے سامنے ہوگا، جب وہ لڑکھڑانے لگے گا تو اُس کا مال کہے گا: ’’چلتے جاؤ! کیونکہ تم نے مجھ سیمُتَعَلِّق اللہ تَعَالٰی کا حق ادا کردیا ہے۔ ‘‘ پھر ایک اور مال دار کو لایا جائے گا، جس نے دُنیا میں اپنے مال میں سے اللہ تَعَالٰی کا حق ادا نہیں کیا ہو گا، اُس کا مال اُس کے دونوں کندھوں کے درمیان ہو گا، وہ شخص جب پُلْ صِراط پر لڑکھڑائے گا تو اُس کا مال اُس سے کہے گا : تُو برباد ہو! تُو نے