ہیں ، دولت ِ عُثمانی رَحمت تھی، دولتِ ابوجَہل زَحمت۔ ‘‘
صَدقہ پیارے کی حیاء کا کہ نہ لے مجھ سے حساب
بخش بے پوچھے لَجائے کو لَجانا کیا ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
قِیامت میں مالداروں کے حساب کی لرزہ خیز کیفیت
حلال مال جمع کرنابے شک گناہ نہیں ، نیز دولتمندی کی وجہ سے کسی مالدار کوگنہگار کہنا روا نہیں۔ اگر100 فیصدی حلال مال کے سبب کوئی مالدار بنا اور اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کرتے ہوئے اُس نے اپنا مال خَرچ کیا تو گنہگار کُجا ثوابِ دارین کا حقدار ہے۔ لہٰذا مال کمانا ہی ہے تو صرف وصرف حلال طریقے پر کمانا چاہئے ۔ مگر صِرف بقدر ضَرورت کمانے ہی میں عافِیَّت ہے، کیوں کہ حلال مال کا حساب ہو گا اوربروزِ قِیامت حساب کی کسی میں تاب نہ ہوگی ۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمدغزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی اِحیاءُ الْعُلُوم کی تیسری جلد میں نَقل کرتے ہیں : ’’ قِیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے حرام مال کمایا اور حرام جگہ پرخَرچ کیا، کہا جائے گا: اسے جہنَّم کی طرف لے جاؤ اور ایک دوسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے حلال طریقے سے مال کمایا اور حرام جگہ پر خَرچ کیا، کہا جائے گا: اسے بھی جہنَّم میں لے جاؤ، پھر ایک تیسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے حرام ذرائِع سے مال جَمع کرکے حلال