دَرَخت کے سائے، راحت کی نیند کا بھی۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : بعدِ موت تین وقت اور تین جگہ حساب ہو گا، (۱) قَبْر میں ایمان کا (۲) حَشر میں ایمان واعمال کا (۳) دوزخ کے کَنارے نِعمتوں کے شُکر کا۔ بِغیر استِحقاق جو عطا ہو وہ نعمت ہے، رب کا ہر عَطِیّہ نعمت ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی اِس کی دوقسمیں ہیں (۱) کسبی (۲) وَہبی ۔ کَسبی یعنی وہ نعمتیں جو ہماری کمائی سے ملیں ، جیسے دولت ، سلطنت وغیرہ ۔ وَہبییعنی وہ نعمتیں جو محض رب کی عطا سے ہوں ، جیسے ہمارے اَعضاء ، چاند ، سورج وغیرہ ۔ کسبی (یعنی اپنی کوششوں سے حاصل کئے ہوئے مال یا ہُنر ایسی) نعمت کے مُتَعَلِّق تین سُوال ہوں گے، (۱) کہاں سے حاصل کیں ؟ (۲) کہاں خَرچ کیں ؟ (۳) ان کاکیا شکریہ ادا کیا ؟ وَہبی (یعنی بغیر ہماری کوشش کے ملی ہوئی) نعمتوں کے مُتَعَلِّق آخِری دو سُوال ہوں گے (یعنی کہاں خرچ کیں ؟ان کا کیاشکریہ ادا کیا؟ ) ۔ تفسیرِخازِن، تفسیرِعزیزی، تفسیرِ روحُ الْبَیان وغیرہ میں ہے کہ مذکورہ آیَتِ کریمہ میں ’’ اَلنَّعِیْم‘‘ سے نبیِّ کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم کی ذات والا صِفات مُراد ہے، ہم سے حُضورِ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں سُوال ہوگا کہ تم نے اِن کی اِطاعت کی یا نہیں ؟ کیونکہ حُضورِ پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو تمام نعمتوں کی اَصل ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت جس دل کو روشن کر دے، اُس کے لئے تمام نعمتیں رَحمتیں ہیں اور بدقسمتی سے جس کے دل میں رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مَحَبَّت نہ ہو اُس کے لئے سب نعمتیں زَحمتیں