نعتِ مصطفٰے
قصیدۂ نور(1)
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغِ طیبہ میں سُہانا پھول پھولا نور کا مستِ بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا نور دن دونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عمَامہ نور کا سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لا جلد کاسہ نور کا ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا ہو مبارک تم کو ذوالنّورین جوڑا نور کا
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کِھلونا نور کا
اے رضاؔ یہ احمَدِ نوری کا فیض نور ہے ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
٭…٭…٭
مشکل الفاظ کے معانی: باڑا (خیرات، بھیک) مجرا (سلام وآداب بجا لانا) توڑا عَزَّ وَجَلَّ (تھیلا یعنی بوری بھر کر) توڑا 2 (کمی، قلت) کاسہ (کشکول) ماہِ نو (نیا چاند) دو شالہ (دوچادریں یعنی دو شہزادیاں ، حضرت سیدتنا رقیہ و اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) ذُوالنورین (دو نوروں والے،امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) مہد (گود، پنگھوڑا)
________________________________
- 1 حدائق بخشش، حصه دوم، ص ۲۴۲