شانۂ اقدس (یعنی مبارک کندھے) پرسُوار کئے ہوئے تھے تو ایک صاحِب نے عرض کی:نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُلَامیعنی صاحبزادے !آپ کی سواری توبڑی اچھی ہے۔رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:وَنِعْمَ الرَّاکِبُ ہُوَیعنی سواربھی تو کیسا اچھا ہے! (ترمذی ج۵ص۴۳۲حدیث۳۸۰۹)
وہ حسن مجتبیٰ، سیّد الاسخیا
راکِبِ دوشِ عزت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش ص۳۰۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۴}ابوہُریرہ دیکھتے تو رو پڑتے
حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میں جب (امام) حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دیکھتا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک دن باہر تشریف لائے مجھے مسجد میں دیکھا ،میرا ہاتھ پکڑا ، میں ساتھ چل پڑا،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے مجھ سے کوئی بات نہ کی یہاں تک کہ ہم بنو قینقاع کے بازار میںداخل ہوئے اور پھر ہم وہاں سے واپس آئے توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنےفرمایا:’’چھوٹا بچہ کہاں ہے ، اسے میرے پاس لاؤ!‘‘حضرت سیّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :میں نے دیکھا، (امام) حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہآئے اور پیارے مصطفیٰصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مبارک گود میں بیٹھ گئے، سلطانِ دو جہاںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی زَبان مبارک ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا:’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!میں ا سے محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہوں تو بھی