رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی اس سفر میں ساتھ تھے۔ حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے اس باغ میں پڑاؤ ڈالا(یعنی قیام کیا)۔خُدام نے ایک سُوکھے درخت کے نیچے آرام کیلئے بچھونابچھا دیا۔ حضرت سیّدنا عبداللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی:اے نواسۂ رسول! کاش ! اس سوکھے درخت پر تازہ کھجوریں ہوتیں! کہ ہم سیر ہو کر کھاتے۔ یہ سن کر حضرتِ سیّدناامام حسن مجتبیٰرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آہستہ آواز میں کوئی دعاپڑھی، جس کی برکت سے چند لمحوں میں وہ سوکھا درخت سرسبزوشاداب ہوگیا اور اس میں تازہ پکی کھجوریں آگئیں ۔ یہ منظر دیکھ کر ایک شتربان (یعنی اونٹ ہانکنے والا)کہنے لگا:یہ سب جادو کا کرشمہ ہے۔ حضرت سیّدنا عبدُاللّٰہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اسے ڈانٹا اورفرمایا: توبہ کر ،یہ جادو نہیں بلکہ شہزادۂ رسول کی دُعائے مقبول ہے ۔ پھر لوگوں نے درخت سے کھجوریں توڑیں اورقافلے والوں نے خوب کھائیں۔ (شواھدُ النّبوۃص۲۲۷)
راکبِ دوشِ شہنشاہِ اُمَم فاطِمہ کے لال حیدر کے پِسَر!
یاحَسَن ابنِ علی! کر دو کرم! اپنی اُلفَت دو مجھے دو اپنا غَم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۲}ولادت سے قبل بِشارت
رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی چچی جان حضرت سیّدتنا اُمُّ الْفَضْل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
نے آپ سے اپنا خواب عرض کیا:’’ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!