ہم قریشی ہیں جب سفر سے واپس آئیں گے تو تم ہمارے پاس آنا ہم تمہارے اس احسان کا بدلہ دیں گے۔ یہ کہہ کر یہ تینوں صاحِبان آگے روانہ ہوگئے‘ جب اُس بڑھیا کا شوہر آیا تو ناراض ہوا کہ تو نے بکری ایسے لوگوںکی خاطر ذبح کرادی جن سے نہ ہماری واقِفیت تھی اور نہ دوستی۔ اس واقعہ کو کچھ مدّت گزر گئی۔ اُس بڑھیااور اس کے خاوَند کو مدینۃ المنورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً جانے کی ضرورت پڑی، وہ وہاں پہنچے اور اونٹ کی مینگنیاں چُن چُن کر بیچنے لگے ( تاکہ اپنا پیٹ بھر سکیں)۔ ایک دن یہ بڑھیا کہیں جارہی تھی حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے مکانِ عالیشان کے قریب سے گزری اُس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہدروازے پر کھڑے تھے ۔ بڑھیا پر جوں ہی نظر پڑی اُس کو پہچان لیا اوراس سے فرمایا: اے خاتون!آپ مجھے پہچانتی ہیں ؟ اُس نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا : میں وُہی ہوںجو فُلاں روزتمہارا مہمان ہوا تھا۔اُس نے کہا :اچّھا آپ وہ ہیں؟ اس کے بعد آپ نے اس بڑھیا کو ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دِینار عطا فرمائے اور اپنے غلام کے ہمراہ اس کو حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پاس بھیجا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بڑھیاسے پوچھا : اے خاتون! میرے بھائی صاحِب نے آپ کو کیا دیا؟ اُس نے کہا: ایک ہزار بکریاں اور ایک ہزار دِینار عطا فرمائے ہیں۔حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی اِسی قَدَر انعام اس کو دیا اور اپنے غلام کے ہمراہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ ابنِ جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے پا س بھیجا۔ انہوں نے بڑھیا سے دریافت کیا :حَسَنینِ کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ کو کتنا مال دیا ہے؟