حاضر ہوئے اوراپنی مالداری کے بارے میں عرض کیا۔ فرمایا:میرے عملِ خیر(یعنی بھلائی کے کام) کو واپس مت کیجیے، اگر میری موجودہ حالت ایسی نہ ہوتی تو یہ (رقم قبول نہ کرنا)تمہارے لیے آسان ہوتا،میں تو آپ حضرات کو زادِ راہ پیش کررہا ہوں، اللہ عَزَّوَجَلَّ عرفے کے دن اپنے بندوں کے متعلق فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: میرے بندے پراگندہ حال(یعنی حیران و پریشان) میری بارگاہ میں رحمت کے سوالی بن کر حاضر ہیں،میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان پر احسان کرنے والے کو بخش دیا،ان سے بُراسلوک کرنے والے کے حق میں ان کے محسن(یعنی احسان کرنے والے) کی شفاعت قبول کی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جمعے کے دن بھی اسی طرح فرماتا ہے۔ ( ابن عساکر ج۱۳ص ۲۴۸ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{18}مہمان نواز بُڑھیا
حَسَنین کریمین (یعنی حسن وحسین) اور عبداللّٰہ ابنِ جعفر رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنتینوں حج کے لیے جارہے تھے ،کھانے پینے اور سامان کا اونٹ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ بھوک پیاس سے بے تاب ہو کر یہ صاحبان راستے میں ایک بڑھیا کے خیمے(CAMP) پر گئے اور اس سے فرمایا: ہم کو پیاس لگی ہے۔اس نے ایک بکری کا دودھ نکال کر ان تینوں کو پیش کیا۔ دودھ پی کر انہوں نے فرمایا : کچھ کھانے کے لیے لائو! بڑھیانے کہا کہ کھانے کو تو کچھ موجود نہیں ہے آپ اسی بکری کو ذَبح کرکے کھالیجئے ۔ان صاحِبان نے ایسا ہی کیا،کھانے پینے سے فارِغ ہو کر انہوں نے کہا :