مجھے اکابِر( یعنی بُزرگوں)سے پہنچا کہ سیِّدُنا امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جب بخیال فتنہ و بلا ( یعنی مسلمانوں میں فساد ختم کرنے کے خیال سے) یہ خلافت ترک فرمائی، اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کے بدلے ان میں اور ان کی اولاد اَمجادمیں غوثِیّتِ عظمی کا مرتبہ رکھا۔ پہلے قطبِ اکبر( غوثِ اعظم) خود حضور سیِّدُنا امام حسن ہوئے اور اوسط ( یعنی بیچ) میںصرف حضور سیدنا عبدُالقادر اور آخِر میں حضرت امام مہدی ہوں گے۔‘‘ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۸ ص ۳۹۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
خلافتِ راشدہ
نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد خلیفۂ برحق وامام مطلق حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق، پھرحضرت عمرفاروق، پھرحضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی پھرچھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہوئے،ان حضرات کوخلفائے راشدین اوران کی خلافت کو خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ (بہارشریعت ج۱ص۲۴۱)
{۱۱}اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں اس سے محبت کرتا ہوں
حضرت سیِّدُنابَراء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (امام) حسن بن علی(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم) کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:اَللّٰہُمَّ اِنِّی اُحِبُّہٗ فَاَحِبَّہٗ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی ج ۵ ص ۴۳۲ حدیث ۳۸۰۸ )