اِس حدیث ِ پاک میں خوشبو کو محبوب فرمایا اور یہ بات معلوم ہے کہ آنکھ اور کان کا اس میں کوئی دخل نہیں بلکہ صرف سونگھنے کا اس کے ساتھ تعلق ہے اور عورتوں کو محبوب فرمایا اور ان میں دیکھنے اور چھونے کا دخل ہے سونگھنے،چکھنےاور سننے کا کوئی تعلق نہیں اور نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا اور اس کو سب سے زیادہ محبوب ٹھہرایا اور یہ بات واضح ہے کہ پانچوں حواس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک چھٹی حس ہے جس کا محل دل ہے اور اس کا ادراک صاحبِ دل ہی کرسکتا ہے۔ پھر یہ کہ پانچوں حواس کی لذت میں جانور بھی انسان کے ساتھ شریک ہیں تو اگر محبت ان حواس سے اِدراک کی گئی اشیاء پر منحصر ہو تو ایسی صورت میں انسان کی خاصِّیَّت باطل ہوکررہ جائے گی اور جس چھٹی حس کی وجہ سے وہ حیوانوں سے ممتاز ہوا ہے جسے عقل، نور، دل یا اور کسی چیز سے تعبیر کرسکتے ہوں بے فائدہ ہوجائے گی جیسے اگر یہ کہا جائے کہ ”چونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کاحَواسِ خَمْسَہ سے ادراک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی صورت خیال میں لائی جا سکتی ہے اس لئےاس سے محبت بھی نہیں کی جاسکتی۔“ اوریہ بات بعید از قیاس ہے کیونکہ بصیرتِ باطنی ظاہری بصیرت سے قوی ہوتی ہے اور دل کا ادراک آنکھ سے بڑھ کر ہوتا ہے اور جن معانی کا ادراک عقل سے کیا جاتا ہے ان کا جمال آنکھ سے ادراک کی جانے والی ظاہری صورتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس لازمی طور پر دل جن امورِ شریفہ الہٰیہ کا ادراک کرتا ہے حواس ان کا ادراک نہیں کر سکتے اور ان کی وجہ سے دل کو حاصل ہونے والی لذت تام اور مکمل ہوتی ہے ۔چنانچہ طبیعتِ سلیمہ اور عقْلِ صحیحہ کا اس کی طرف میلان قوی ہوتا ہے اور محبت کا معنی بھی یہی ہے کہ ”جس چیز کے ادراک میں لذت ہو اس کی طرف میلان پایا جائے“جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل آئے گی۔ تو ایسی صورت میں محبَّتِ الٰہی کا انکار وہی شخص کرے گا جس کو سستی اور کوتاہی جانوروں کے درجے میں بٹھا دے اور وہ حواس کے ادراک سے آگے بالکل نہ بڑھ سکے ۔
تیسری بات:
یہ بات پوشیدہ نہیں کہ انسان اپنے نفس سے محبت کرتا ہے اور یہ بھی مخفی نہیں کہ بعض اوقات یہ اپنے نفس کی خاطر کسی اور سے بھی محبت کرتا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ دوسرے سے محبت اپنے نفس کے لئےنہ ہو بلکہ اس کی ذات کی وجہ سے ہو؟ یہ معاملہ کم ہمت لوگوں کے لئے مشکل ہوگیا ہے حتّٰی کہ وہ گمان کرتے