لہٰذا ہر وہ شے جس کے ادراک میں ادراک کرنے والے کو لذت اور راحت ملے وہ اس کے نزدیک محبوب ہوتی ہے اور جس کے ادراک میں تکلیف ہو وہ ادراک کرنے والے کے نزدیک مبغوض(ناپسندیدہ) ہوتی ہے اور جو شے لذت و تکلیف سے خالی ہو وہ نہ توادراک کرنے والے کی محبوب ہوسکتی ہے اور نہ ہی مبغوض۔ غرضیکہ ہر لذیذ چیز لذت پانے والے کے نزدیک محبوب ہوتی ہے اور اس کے محبوب ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی طرف طبیعت کا میلان ہے اور اس کے مَبْغُوض ہونے کا معنی یہ ہوتاہے کہ طبیعت میں اس سے نفرت پائی جاتی ہے۔ تو طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانا ”محبت“ کہلاتا ہے اور جب یہ میلان قوی اور پختہ ہوجائے تو اسے ”عشق“ کہتے ہیں اورتکلیف دہ چیز سے طبیعت کے نفرت کرنے کو ”بغض“ کہتے ہیں اور جب یہ بغض قوی ہوجائے تو اسے مَقْت(سخت نفرت وبیزاری) کہا جاتا ہے۔ یہ محبت کے حقیقی معنی کی اصل ہے جس کا جاننا ضروری ہے۔
دوسری بات :
چونکہ محبت اِدراک اور معرفت کے تابع ہے تو لازمی طور پر ادراک کرنے والی قوّتوں اور حَواس کی درجہ بندی کی طرح محبت کی بھی اقسام ہوں گی۔ لہٰذا ہر حس ایک مخصوص قسم کا ادراک کرتی ہے اورہر حس کے لئے اداراک کی جانے والی شے میں ایک لذت ہوتی ہےاوراسی لذت کی وجہ سے طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور وہ طبیعتِ سلیمہ کے نزدیک محبوب ہوتی ہے۔ چنانچہ آنکھوں کی لذت دیکھنے اور خوبصورت چیزوں اور صورتوں کا ا دراک کرنے میں ہے، کانوں کی لذت خوبصورت اور موزون نغمات میں ہے، سونگھنے کی لذت اچھی خوشبوؤ ں میں ہے، چکھنے کی لذت کھانوں میں ہے اور چھونے کی لذت نرم اور ملائم چیزوں میں ہےاور جب ان ادراک کی جانے والی اشیاء سے حواس کو لذت ملتی ہے تویہ محبوب ہوتی ہیں۔ مطلب یہ کہ طبیعتِ سلیمہ ان کی طرف مائل ہوتی ہے حتّٰی کہ حضورنبیّ کریم ،رَءُ وْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ ثَلَاثٌ اَلطِّیْبُ وَ النِّسَاءُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاةِ یعنی تمہاری دنیا سے مجھے تین چیزیں محبوب بنائی گئیں ہیں،خوشبو،عورتیں اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔“(1)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…نسائی، کتاب عشرة النساء، باب حب النساء،ص۶۴۴، حدیث:۳۹۴۵ ،بدون’’ثلاث‘‘