آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے:”الٰہی!میں تیرے دربارمیں حاضر ہوں اور تیری ثناء میں مشغول ہوں۔تونے مجھے بچپن ہی سے اپنے رنگ میں رنگ دیا، اپنی معرفت کا لباس پہنایا، اپنے لُطف و کرم سے نوازااور میرے احوال کو دُرُست کیا،تُو مجھے اعمال، پردہ پوشی ، توبہ ، زُہد، شوق، رضا اور محبت میں بدلتا رہا،تو نے مجھے اپنے حوضوں سے سیراب کیا اور اپنے باغوں میں پھرایا،لہٰذا میں نے تیرے حکم کو اختیار کیا اور تیرے قول کا دلدادہ رہااوراب جب میں جوان ہوگیا ہوں اور پرواز کا وقت آگیا ہے تو میں تجھ سے کس طرح الگ ہو سکتا ہوں۔“
دوسری فصل: محبت کی حقیقت،اس کے اسباب اور بندے کی اللہ تعالٰی سے محبت کی وضاحت
تین بُنیادی باتیں:
جان لیجئے کہ جب تک نفْسِ محبت کی حقیقت پھر اس کی شرائط اور اسباب کی پہچان اوراس کے بعد اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حق میں محبت کے معنیٰ کی حقیقت معلوم نہیں ہوگی تب تک اس بیان کا مطلب واضح نہیں ہوگا اس کے لئے یہاں تین بنیادی باتیں بیان کی جاتی ہیں:
پہلی بات :
سب سے پہلے جو بات جاننے والی ہے وہ یہ ہے کہ معرفت اور ادراک کے بغیر محبت نا ممکن ہے کیونکہ انسان اسی سے محبت کرتا ہے جس کی اُسے معرفت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جمادات کو محبت کے ساتھ موصوف نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ زندہ اور ادراک رکھنے والے کی خاصیت ہے ،پھرجس کا ادراک کیا جاتا ہے اس کی تین اقسام ہیں:(۱)…بعض تو وہ ہیں جو ادراک کرنے والے کی طبیعت کے موافق اور مناسب ہوتے ہیں اوراُسے اِن سے لذّت ملتی ہے۔(۲)…بعض اس کی طبیعت کے منافی ہوتے ہیں جن سے اُسے نفرت اور تکلیف ہوتی ہے اور (۳)…بعض ایسے ہوتے ہیں جن کااس کی طبیعت پر کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی نہ تو تکلیف دہ ہوتے ہیں اور نہ ہی باعِثِ لذت ۔