پہلے اسے پڑھ لیجئے!
ہر انسان ترقّی کا خواہش مند ہے اور اپنے اپنے اصولوں کے مطابق ترقّی کرنا چاہتا ہے ۔کوئی کاروبار میں اضافے کو ترقی سمجھتاہے توکوئی اپنا معیارِ زندگی بلند کرلینے کو ترقی قراردیتاہے اورکوئی مثبت انداز میں اِرتِقا کے مراحِل عُبُور کرنے کو ترقّی کا نام دیتا ہے مگر اصل ترقی کیا ہے؟تو سنیئے اصل ترقّی عُمدہ اخلاق اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مضبوط کردار کا نام ہے اور کردار کی مضبوطی یہ ہے کہ بندہ اپنے اعمال کی بنیاداچھے اخلاق جیسے توبہ ورجوع ، خوف ورجا،مراقبہ ومحاسبہ،فقروزہد،محبت ورضا،فکرو عبرت اورتوکل وغیرہ پر رکھ کرہر حال میں اس پر ڈٹا رہے ۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں کے اَخلاق عمدہ تھے وہ ترقّی کے بامِ عُرُوج پر پہنچ گئیں مگر جب انہوں نے مادی اشیاءکی طرف دھیان دینا شروع کیا اور اس میں کھو کر رہے گئے تو ان کے اخلاق میں پستی آنا شروع ہوگئی اور یہ اخلاقی پستی ان قوموں کے زوال کا سبب بن گئی۔بنی اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے ہے اور یہی حادثہ اس اُمَّتِ مسلمہ کے ساتھ پیش آیا کہ جب اِس اُمَّت نے اپنے پیارے نبی،حضرت محمدمصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بتائے ہوئے عُمدہ اخلاق اور رِضائے ربُّ الْانام والے کاموں کو اپنایا تو سارے جہاں میں ان کی ترقّی کی دھوم تھی لیکن جب ان اخلاقی خوبیوں کی جگہ برائیوں نے لی تو ترقّی تَنَزلی میں تبدیل ہو کر رہ گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی خوبیوں پر استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونا اور اس میں آہستہ آہستہ اضافہ کرتے جانا نہ صرف جسمانی ودنیاوی ترقّی کا باعث ہے بلکہ معرفت وحقیقت،بلندیٔ درجات،نجاتِ آخرت، منصَبِ محبوبیت اور قُربِ خداوندی جیسی روحانی ترقّی کا بھی سبب ہے۔چنانچہ
حدیْثِ قُدسی میںاللہ عَزَّ وَجَلَّارشادفرماتا ہے:”میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے حاصل نہیں کرتااورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب میں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے،اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ اگروہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضروردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔“(1)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،۴/ ۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲