جن کے لئے یہ چاروں استعمال ہوتے ہیں مثلاً قلبِ جسمانی، روحِ جسمانی، خواہشاتِ نفس اور عُلُوم وغیرہ اور ایک پانچواں معنی بھی ہے یعنی ربّانی لطیفہ جس کے استعمال میں چاروں الفاظ مشترک ہیں تو معانی پانچ ہیں اور الفاظ چار اور ہرلفظ کے دو معنیٰ ہیں۔
چونکہ علم والے بےشمار حضرات پر ان لفظوں کے معانی کا اختلاف صحیح طرح واضح نہیں اسی لئے تم دیکھو گے کہ وہ ”خواطر“ کی بحث میں ہر ایک کو الگ الگ نام دیتے ہیں یعنی خاطِرِعَقْل، خاطِرِرُوح، خاطِرِ قَلْب اورخاطِرِنفس۔ حالانکہ عوام کو ان کے معانی کے اختلاف کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس غلط فہمی ولاعلمی کو دور کرنے کے لئے ہم نے ابتداءً ان کی وضاحت کردی۔
رَبّانی لطیفہ اور جسمانی قلب کا باہمی تعلق:
قرآن وحدیث میں جہاں کہیں لفظِ”قلب“ آیا ہے اس سے مراد انسان میں موجود وہ ربانی لطیفہ ہے جو اشیاء کی حقیقتوں کو پہچانتا ہے۔ بعض اوقات سینے میں مو جو د دل بھی کنا یۃً اس سے مراد لیا جاتا ہےکیونکہ اس ربانی لطیفہ کو جسمانی قلب سے ایک خاص تعلق ہے۔ اگرچہ ربانی لطیفہ کا تعلق پورے جسم سے ہے اور یہ جسم ہی کے لئے عمل کرتا ہے لیکن یہ تعلق جسمانی قلب کے واسطے سے ہوتا ہے، لہٰذا ربانی لطیفہ کا تعلق اوّلاً جسمانی قلب سے ہوتا ہے گویا جسمانی قلب ربانی لطیفہ کا محل، سلطنت، پہچان اور اس کی سواری ہے۔ اسی کے پیش نظر حضرت سیِّدُنا سَہْل تُسْتَرِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَ لِی نے قلب کو عرش اور سینے کو کرسی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: ”قلب عرش اور سینہ کرسی ہے۔“
اس قول سے ہرگز کوئی یہ نہ سمجھے کہ آپ کی مراد اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا عرش وکرسی ہے کیونکہ یہ نا ممکن ہے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مراد تو یہ ہے کہ دل اور سینہ ربانی لطیفہ کی سلطنت ہیں اس کا ارادہ وتصرف پہلے انہی پر جاری ہوتا ہے۔ گویا ان دونوں کو ربانی لطیفہ سے ایسی ہی نسبت ہے جیسی عرش وکرسی کوذات باری تعالیٰ سے۔
یہ تشبیہ فقط بعض وجوہ سے درست ہے۔ نیز ہمارے مقصد سے اس بحث کا کوئی تعلق نہیں،لہٰذا ہم اسے یہیں موقوف کرتے ہیں۔