وَمَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (پ۱۳،يوسف:۵۳)
ترجمۂ کنز الایمان:اور میں اپنے نفس کو بےقصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔
نفس کا جو پہلا معنی بیان کیا گیا اس سے بھی”نفس امّارہ“مراد لینا ممکن ہے، اس صورت میں نفس مذمت کازیادہ حق دار ہے اور دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے قابل تعریف کیونکہ یہی نفس(یعنی ربانی لطیفہ) انسانی ذات اور اس کی حقیقت ہے جو صِفاتِ باری تعالیٰ اور تمام اشیاء کی معرفت کی صلاحیت رکھتا ہے۔
عقل کے معانی:
عقل کے بھی بےشمار معانی ہیں جنہیں ہم ”علم کے بیان“ میں ”باب نمبر7“کے تحت ذکر کرچکے یہاں اس کے دو معنیٰ بیان کریں گے:(۱)…عقل سے مراد کبھی اشیاء کی حقیقتوں کا علم ہوتا ہے جس کا محل قلب ہے۔ (۲)…کبھی عقل سے مراد قلب (یعنی علوم کا محل) ہوتا ہے جو علوم کا ادراک کرنے والا ہے، جسے ربّانی لطیفہ بھی کہتے ہیں۔
(ان دونوں تعریفات کو سمجھنے کے لئے) ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر شے جو علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ قائم بنفسہٖ ہے جبکہ علم ایک صفت ہے جو اپنے وجود میں اس شے (یعنی ذات) کی محتاج ہے اور یہ تو معلوم ہے کہ صفت موصوف کا غیر ہوتی ہے اسی لئے عقل کا اطلاق کبھی صفت پر کردیا جاتا ہے اور کبھی صفت کے محل اور ادراک کرنے والی ذات پر۔ حضور سیِّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فرمان:”اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ الْعَقْلیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّنے سب سے پہلے عقل کو پیدافرمایا‘‘ (1)سے یہی محل اور ادراک کرنے والی ذات مراد ہے کیونکہ علم عرض(یعنی اپنےوُجُود میں غیر کا محتاج) ہے اس کا سب سے پہلے پیدا کیا جانا ممکن ہی نہیں، اس سے پہلے یا اس کے ساتھ ایک ذات کا ہونا ضروری ہے جو اس کا محل ہو۔ حدیث پاک میں مذکور لفظ ”عقل“سے علم اس لئے بھی مراد نہیں لیا جاسکتا کہ عرض سے خطاب نہیں کیا جاتا جبکہ روایت میں ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عقل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:آگے ہوتو وہ آگے ہوگئی اور جب فرمایا پیچھےجا تو وہ پیچھے ہوگئی۔
اس ساری بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان چاروں لفظوں کے چار جدا جدا معانی ومَطالِب ہیں
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…فردوس الاخبار،۱/ ۲۹، حديث:۴