غصے کو ابھارتا ہے۔اس کی وضاحت بعد میں کی جائے گی۔ صوفیائے کرام اس لفظ کو اکثر استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک نفس سے مراد انسان میں مذموم صفات جمع کرنے والی قوت ہے۔ اسی لئے صوفیا فرماتے ہیں کہ مجا ہدۂ نفس اور اس کی کاٹ ضروری ہے۔ حُضُورنبیّ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےاس فرمان عالیشان سے اسی طرف اشارہ ملتا ہے کہ’’تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں میں ہے۔‘‘(1)
(۲)…نفس وہی ربانی لطیفہ ہے جس کا تذکرہ ہم کر چکے۔
نَفْسِ مُطْمَئِنَّہ، نفس لَوَّامہ اور نفس اَمّارہ:
انسان کی حقیقت، اس کا نفس اور اس کی ذات یہی ربّانی لطیفہ ہے، مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے اوصاف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ خواہشات سے مقابلہ کرتے کرتے جب یہ احکام الٰہی کا پابند ہوجاتا اور اس کی بےقراری دور ہوجاتی ہے تو اسی ربّانی لطیفہ کو ”نَفْسِ مُطْمَئِنَّہ“ کہا جاتا ہے۔ اسی کے متعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ﴿۲۷﴾٭ۖ ارْجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادْخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ (پ۳۰،الفجر:۲۸،۲۷)
ترجمۂ کنز الایمان:اے اطمنان والی جان اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
پہلے معنیٰ(یعنی شہوت اور غصہ) کےاعتبار سے نفس کااللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں رجوع کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ معنی تو نفس کواللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دور اور شیطانی گروہ میں شامل کرنے کا سبب ہے۔
جب اس ربانی لطیفہ کی بے قراری مکمل دور نہ ہو (یعنی اسے خواہشات پر غلبہ حاصل نہ ہو) لیکن خواہشات کی مخالفت مسلسل کرتا رہے ان سے مقابلہ کرتا رہے تو اس وقت اسے ”نفس لَوَّامَہ“کہا جاتا ہے کیونکہ انسان جب عبادت الٰہی میں کوتاہی کرے تو یہ اسے ملامت کرتا ہے۔ جیساکہاللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ ﴿۲﴾ (پ۲۹،القيٰمة:۲)
ترجمۂ کنز الایمان:اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے۔
اگر یہ ملامت کرنا چھوڑ دے اور خواہشات کی پیروی اور شیطانی باتوں کی اتباع کرے تو اسے ”نفس اَمّارَہ“ کہاجاتا ہے۔اس کے متعلقاللہ عَزَّ وَجَلَّحضرت سیِّدُنایُوسُفعَلَیْہِ السَّلَامکاقول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1… الزهدالکبير،الجزء الثانی،ص۱۵۷،حديث:۳۴۳