خلاصۂ کلام یہ ہے کہ کتاب میں ہم جہاں لفظ ”قلب“ ذکر کریں گے ہماری مراد یہی ”روحانی ورَبّانی لطیفہ“ ہوگا۔نیزہمارا مقصد اس ربانی لطیفہ کےاحوال واوصاف بیان کرنا ہے نہ کہ اس کی ذاتی حقیقت کیونکہ عِلْمِ مُعامَلَہ اس کے احوال واوصاف کی معرفت کا محتاج ہے نہ کہ اس کی ذاتی حقیقت کا۔
روح کے معانی:
روح کے بھی دو معنی ہیں:(۱)…روح ایک لطیف جسم ہے جس کا منبع ظاہر دل یعنی گوشت کے مخصوص ٹکڑے کا اندرونی حصہ ہے، جہاں سے یہ رگوں کے ذریعے تمام جسم میں سرایت کرتی ہے۔اس کا جسم میں جاری ہونا اور جسم کے تمام اعضاء کو زندگی اور قوت بخشنا ایسا ہے جیسے گھر کے کونے میں رکھا چراغ پورے گھر کو روشن کردیتا ہے، تمام اعضاء کو ملنے والی زندگی اس روشنی کی طرح ہے جو دیواروں پر پھیلی ہوئی ہے اور روح کی مثال چراغ کی سی ہے اور روح کا بدن میں سرایت وحرکت کرنا ایسا ہے جیسے کوئی چراغ کو گھر میں ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ رکھ دے۔
لفظ ”روح“ کا یہ معنی طبیب حضرات مراد لیتے ہیں اور یہی وہ ”لطیف حرارت“ ہے جو دل کی حرارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس معنیٰ کی وضاحت کرنا ہمارا مقصد نہیں کیونکہ اس کا تعلق تو ان طبیبوں سے ہے جو ظاہری بدن کا علاج کرتے ہیں جہاں تک دین کی اصلاح کرنے والے طبیبوں (یعنی علما) کا تعلق ہے تووہ دل کا علاج کرتے ہیں حتّٰی کہ دلاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا قرب پالیتا ہے، اگر روح سے وہی معنی مراد لیا جائے جو اَطِبّا لیتے ہیں تو علما کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
(۲)…روح وہ رَبّانی لطیفہ ہے جو انسان کی حقیقت کا ادراک کرتا اور اسے پہچانتا ہے۔یہ وہی ربانی لطیفہ ہے جس کی وضاحت ہم نے قلب کا دوسرا معنی بیان کرتے ہوئے کی ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فرمان:’’ قُلِ الرُّوۡحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیۡ (1)‘‘سے یہی مراد ہے۔ یہ ایسا امر الٰہی ہے جس کی حقیقت جاننے سے اکثر عُقَلا عاجز ہیں۔
نفس کے معانی:
نفس کے بےشمار معانی ہیں لیکن ہمارا مقصود دو معنی ہیں:(۱)…نفس اسے کہتے ہیں جو انسان میں شہوت اور
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
… ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے۔(پ۱۵،بنی اسرآئيل:۸۵)