معلوم ہواکہ علم وعمل ناگزیرہیں مگرفقط ظاہری علم اورظاہری عمل حقیقی فائدہ نہیں دے سکتا ، باطن کی اصلاح بھی ضروری ہے ۔جو ظاہر کو سنوارے لیکن باطن گندگیوں سے آلودہ ہو تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جوبادشاہ کودعوت دینے کے بعدصر ف اپنے گھرکے بیرونی حصے کی صفائی وستھرائی پرتوجہ دے مگراندرونی حصے میں گندگیوں کے ڈھیرلگے رہنے دے۔ ایسے شخص کوکوئی بھی عقل مند نہیں کہے گا۔اسی طرح حصول علم کے بعداگربندہ صرف ظاہرکو خوب مزین و آراستہ کرے اور باطن کونہ سنوارے تووہ بھی عقل کا درست استعمال کرنے والانہیں کہلائے گا۔پھریہ کہ جس قدر باطن کی اصلاح اورطہارت وصفائی زیادہوتی جائے گی علم کانفع بھی اسی قدر بڑھتاجائے گا۔
حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں :’’طہارت کے چار درجے ہیں :(۱)ظاہر کو ناپاکیوں، نجاستوں وغیرہ سے پاک کرنا(۲)… اعضاء کو جرائم اور گناہوں سے پاک کرنا (۳)…دل کو برے اخلاق اور ناپسندیدہ خصلتوں سے پاک کرنا (۴)…باطن کوغیراللّٰہسے پاک کرنا۔ ‘‘
چوتھے درجے کے متعلق فرماتے ہیں :’’اس سے مقصود دل میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی جلالت و عظمت کاظہوراور معرفت خدا وندی کاحصول ہے اور باطن میں معرفت الٰہی اس وقت تک جاگزیں نہیں ہوسکتی جب تک اسے غیر خدا کے خیال سے پاک نہ کر لیا جائے۔نیز بندہ اس وقت تک باطن کو مذموم صفات سے پاک اور اچھی عادات سے آباد نہیں کر سکتا جب تک دل کو بری عادت سے پاک اور اچھے اخلاق سے مزین نہ کر لے اور جو شخص اعضاء کو ممنوعات سے بچاکر عبادات سے معمور نہ کر لے وہ بلندمقام پر فائز نہیں ہوسکتا۔لہٰذا جب مطلوب قابلِ عز وشرف ہو تواس کا راستہ دشواراور طویل ہوتا ہے اور اس میں گھاٹیاں زیادہ ہوتی ہیں اوریہ محض خام خیالی ہے کہ باطن کی پاکیزگی باآسانی حاصل ہو جائے گی۔ (۱)
واضح ہواکہ باطن کی اصلاح وصفائی کے لئے مجاہدات کی مشقت برداشت کرنا ، نفس کا محاسبہ کرنااوراس کے ساتھ جہاد لازم ہے اوریہ سب سے بڑاجہادہے۔حضوررحمت عالَم ،ہادی ٔبرحق ،مصطفیٰ جان رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جہاد بالنفس کو جہاد اکبر فرمایا ہے، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ’’ ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر (یعنی جہاد بالنفس)کی طرف لوٹے۔‘‘(۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…احیاء علوم الدین،کتاب الطہارت، ج۱، ص۱۷۳،۱۷۴،ملخصًا۔
2…احیاء العلوم،ج۲،ص۳۰۴۔