پہلے اسے پڑھ لیجئے!
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے عالم دنیا کو وجود بخشا، اس میں قسم قسم کی مخلوق پیدا فرمائی۔حضرت انسان کی تخلیق فرماکر اسے اشرف المخلوقات بنایا۔ اسے بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ موت و حیات کو پیدا کرکے تخلیق انسانی کا مقصد بھی بیان فرما دیاتاکہ کوئی کم عقل یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کی پیدائش کا مقصد محض کھانا پینا، سونا ، جنسی خواہشات کی تکمیل، فتح و نصرت، غلبہ واقتدار اور دوسروں پر تسلط قائم کرنا ہے، یہ سوچ ونظریہ بالکل فاسد ہے کیونکہ یہ ایسی باتیں ہیں جو جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں تو پھر اس میں انسان کی خصوصیت کیامعنی رکھتی ہے ۔انسان کی بادشاہی وسرفرازی کی وجہ یہ ہے کہ اسے ایک ایسی صفت عطا کی گئی ہے جو اس کا بنیادی کمال ہے اور وہ ہے عقل،جس کے ذریعے وہ شیطان ونفسانی خواہشات پر قابو پاکردیگر مخلوقات پررفعت پاتااور معرفت الٰہی حاصل کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل کے درست استعمال کے سبب بعض انسان بعض فرشتوں سے افضل اور غلط استعمال کے باعث جانوروں سے بھی بد تر ہوجاتے ہیں ۔ تخلیق انسانی کامقصدتویہ تھاجسے قرآن حکیم نے بیان فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنۡسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (پ۲۷،الذّٰ ریٰت:۵۶)
ترجمۂ کنزالایمان:اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی(اسی) لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔
چاہیے تویہی تھاکہ اپنے مقصدکوسامنے رکھتے ہوئے عقل کادرست استعمال کیاجاتالیکن انسان اس مقصد سے رو گرداں ہے۔مگرایسے ماحول میں کچھ خوش نصیب وہ بھی ہیں جواس مقصدکوپانے کے لئے کوشاں ہیں اوراس کے لئے حصولِ علم کے بعدشارعِ عمل پرگامزن ہیں مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے بھی زیادہ تراپنے ظاہرکوسنوارنے کی کاوش میں ہیں اورباطن کی پاگیزگی کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ علم وعمل ایک دوسرے کولازم وملزوم ہیں ۔جیساکہ حضرت سیِّدعلی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہنے فرمایا: ’’ عمل بغیرعلم کے عمل نہیں کہلاتاکیونکہ عمل اس وقت تک عمل نہیں بنتا جب تک اسے علم کی تائید حاصل نہ ہو اور عمل کا ثواب علم ہی کی وجہ سے ملتا ہے، لہٰذا عمل بغیر علم کے عمل نہیں بلکہ بدعملی ہے اوریوں ہی عمل کو علم سے جدا سمجھناجہالت ہے اوریہ خیال کرنا کہ محض علم عمل سے افضل ہے ،درست نہیں کیونکہ عمل کے بغیر علم، علم نہیں کہلاتااور علم پر عمل نہ ہو تو حصولِ علم کا ثواب نہیں ملتا۔‘‘(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…کشف المحجوب،باب اثبات العلم،ص۱۱،ملخصًا۔