سوال کیا، آپ نے 10 جواب دئیے۔تو حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ’’جواب سوال کے مطابق ہونا چاہئے ، سوال ایک کیا گیا اور تم نے 10 جواب دئیے۔‘‘ تو حضرت سیِّدُناامام محمدغزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی نے عرض کی: جب اللّٰہ عزَّوجلَّنے آپ سے پوچھا تھا: وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۱۷﴾ (پ۱۶،طٰہٰ:۱۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ۔‘‘ تو اتنا عرض کر دینا کافی تھا کہ ’’ یہ میرا عصا ہے۔‘‘ مگرآپ نے اس کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں ۔(۱)
حضراتِ علمائے کرام کَثَّرَھُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ گویاامام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللّٰہ عَلَـیْہِ السَّلَامکی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ ’’جب آپ کاہم کلام باری تعالیٰ تھاتوآپ نے وفورِمحبت اورغلبۂ شوق میں اپنے کلام کوطول دیاتاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کاشرف حاصل ہوسکے اوراس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع ملاہے اورکلیم خدا سے گفتگوکاشرف حاصل ہواہے اس لئے میں نے اس شوق ومحبت سے کلام کوطوالت دی ہے۔‘‘(۲)
قابل فخرہستی :
حضرت سیِّدُنا امام ابوالحسن شاذلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : میں خواب میں زیارتِ رسول سے مشرف ہوا تو دیکھا کہ حضوررحمت ِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُناموسیٰ اور حضرت سیِّدُناعیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی پر فخرکرتے ہوئے فرمارہے ہیں : ’’کیا تمہاری امتوں میں غزالی جیسا عالم ہے۔‘‘دونوں نے عرض کی: ’’ نہیں ۔‘‘(۳)
امام الانبیا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دست بوسی کی سعادت:
حضرت سیِّدُناجمال حرم ابو الفتح عامربن نجا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد حرام میں داخل ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1… فتاوٰی رضویہ، ج۲۸، ص۴۱۰، اشارۃً ۔
2…کوثرالخیرات، ص۴۰۔
3…النبراس شرح شرح العقائد، ص۲۴۷۔
اتحاف السادۃ المتّقین، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۱۲۔
تعریف الاحیاء بفضائل الاحیاء علی ہامش احیاء علوم الدین ، ج۵، ص۳۶۴۔