ہیں ہزاروں لوگ آپ کے مریدہیں ؟‘‘ آپ نے جواب دیا:’’ایسے شخص کالباس کیادیکھتے ہوجواس دنیامیں ایک مسافرکی طرح مقیم ہواورجواس کائنات کی رنگینوں کوفانی اوروقتی تصورکرتاہے۔جب والی دوجہاں ، رحمت ِ عالمیاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس دنیامیں مسافرکی طرح رہے اورکچھ مال وزراکٹھانہ کیا تومیری کیاحیثیت اورحقیقت ہے۔‘‘(۱)
شہرت وناموری سے دوری:
ایک بارآپ جامع اموی میں تشریف فرما تھے ۔مفتیانِ کرام کی ایک جماعت صحن مسجد میں موجود تھی۔ ایک دیہاتی نے آکر مفتیانِ کرام سے کوئی سوال پوچھامگرکسی نے اس کاجواب نہیں دیا۔ جبکہ حضر ت امام صاحب خاموش تھے پھر جب آپ نے دیکھا کسی کے پاس اس کا جواب نہیں اورجواب نہ ملنااس پرشاق گزراہے تو اس دیہاتی کو اپنے پاس بلاکر سوال کا جواب بتایا ۔مگر وہ دیہاتی مذاق اڑانے لگاکہ ’’ جس سوال کا جواب بڑے بڑے مفتیوں نے نہیں دیا یہ عام فقیر کیسے دے رہاہے۔‘‘اس وقت وہ مفتیان کرام یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ دیہاتی جب آپ سے بات کرکے فارغ ہوا توان مفتیان عظام نے اسے بلاکر پوچھا :’’اس عام سے آدمی نے کیاجوا ب دیا؟‘‘ جب اس نے حقیقت حال واضح کی تویہ حضرات امام صاحب کے پاس گئے اورجب ان سے متعارف ہوئے توان سے درخواست کی کہ ’’آپ ہمارے لئے ایک علمی نشست کاانعقادکریں ۔‘‘آپ نے اگلے دن کا فرمادیامگراسی رات وہاں سے سفر کرگئے ۔(۲)
خودپسندی کاخوف:
ایک باراتفاقاًحضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی دمشق کے مدرسہ’’ اَمِینِیَّہ‘‘ میں تشریف لے گئے تو دیکھاکہ وہاں ایک استاذ کہہ رہے تھے : قَالَ الْغَزَالِییعنی وہ آپ کے کلام کے ساتھ تدریس کررہے تھے ۔یہ سن کر آپ پرخودپسندی (میں گرفتارہونے )کا خوف طاری ہوگیاتو آپ نے دمشق چھوڑدیا۔(۳)
دنیاسے بے رغبتی اورعاجزی :
’’شَذَرَاتُ الذَّہَب‘‘میں ’’ زَادُ السَّالِکِیْن‘‘کے حوالے سے مذکورہے : حضرت سیِّدُنا قاضی ابو بکر بن عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…مقدمہ کیمیائے سعادت (مترجم ازمولانامحمدسعیداحمدنقشبندی)ص۳۱۔
2…طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۹۔
3…طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۹۔