علمائے کرام نے نہایت خوشامد واکرام سے روکا لیکن میں نے ان کی ایک نہ مانی اس لئے سب کو چھوڑچھاڑ کر شام کی راہ لی(اور پھر ایک وقت آیاکہ شام سے اپنے آبائی وطن ’’طوس‘‘ تشریف لے گئے ) ۔‘‘(۱)
الغرض روحانی سکون کی خاطرآپ نے منصب تدریس چھوڑدیا ۔دنیاکی گوناگوں مصروفیات اور رنگا رنگی سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلی حتی کہ لباس فاخرہ کے بجائے ایک کمبل اوڑھاکرتے تھے اورلذیذ غذاؤں کی جگہ ساگ پات پرگزر بسر ہونے لگی ۔اپنے شہرطوس پہنچ کرصوفیا کے لئے ایک خانقاہ اورشوق علم رکھنے والوں کے لئے ایک مدرسہ تعمیر کیااورپھرتادم حیات اورادووظائف،ریاضت وعبادت،گوشہ نشینی اورتدریس تصوف میں مشغول رہے۔(۲)
پانچ سودینارکے لباس و سواری:
فقیہ ابن رَزَّاز ابو منصورسعید بن محمد عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الصَّمَد (متوفی۵۳۹ھ) بیان فرتے ہیں :’’جب پہلی بارحضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی عالمانہ شان وشوکت کے ساتھ بغداد میں داخل ہوئے تو ہم نے ان کے لباس وسواری کی قیمت لگائی تو وہ 500 دینار بنی پھر جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے زہد وتقوی اختیار کیا اور بغداد چھوڑدیا، مختلف مقامات کا سفرکرتے رہے اوردوبارہ جب بغداد میں داخل ہوئے تو ہم نے ان کے لباس کی قیمت لگائی تووہ پندرہ قیراط (یعنی چند معمولی سکے)بنی ۔‘‘(۳)
زہد وتقویٰ
آپ کی سادگی اوریادآخرت:
حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی ایک بار مکہ معظمہ میں تشریف فرماتھے ۔آپ چونکہ ظاہری شان و شوکت سے بے نیازتھے ۔اس لئے آپ نہایت سادہ اورمعمولی قسم کالباس پہنے ہوئے تھے ۔حضرت سیِّدُناعبدالرحمن طُوسی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے عرض کی:’’ آپ کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی کپڑانہیں ہے ۔آپ امام وقت اورپیشوائے قوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1… مقدمہ احیاء العلوم (مترجم ازعلامہ فیض احمداویسی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی)، ج۱، ص۲۰۔
تعریف الاحیاء بفضائل الاحیاء علی ہامش احیاء علوم الدین، ج۵، ص۳۶۵تا۳۶۸، ملخصًا۔
2…مرآۃ الجنان وعبرۃ الیقظان، ج۳، ص ۱۳۷، ملخصًا۔
3…المنتظم فی تاریخ الملوک والامم، ج۹، ص ۱۷۰۔